تاریخ کا سب سے بڑا اسکام؟ کے ٹی آر نے لگایا چیف منسٹر پر 5 لاکھ کروڑ کے گھوٹالے کا الزام، کیا ہے پوری خبر؟
کے ٹی آر نے اس پالیسی کو ’’بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ اسکام‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ صرف وزیرِاعلیٰ کے قریبی رشتہ داروں، سیاسی طور پر منسلک دلالوں اور مخصوص رئیل اسٹیٹ گروپس کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
حیدرآباد: بی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ (کے ٹی آر) نے تلنگانہ کے وزیرِاعلیٰ اے۔ ریونت ریڈی پر سنسنی خیز الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نئی حیدرآباد انڈسٹریل لینڈز ٹرانسفارمیشن پالیسی (HILTP) کے ذریعے 5 لاکھ کروڑ روپے کے بڑے گھوٹالے کی بنیاد رکھی ہے۔
کے ٹی آر نے اس پالیسی کو ’’بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ اسکام‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ صرف وزیرِاعلیٰ کے قریبی رشتہ داروں، سیاسی طور پر منسلک دلالوں اور مخصوص رئیل اسٹیٹ گروپس کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
تلنگانہ بھون میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کے ٹی آر نے دعویٰ کیا کہ کانگریس حکومت جس پالیسی کو ’لینڈ ریگولرائزیشن اور ٹرانسفارمیشن‘ کا نام دے رہی ہے، حقیقت میں وہ ہزاروں ایکڑ قیمتی صنعتی اراضی کو اونے پونے داموں میں کمرشل اور رئیل اسٹیٹ استعمال کے لیے تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا:
"یہ کوئی پالیسی نہیں، بلکہ 5 لاکھ کروڑ روپے کے بڑے گھوٹالے کا ایک پورا بلیو پرنٹ ہے۔ ریونت ریڈی بھارت کی سب سے بڑی لینڈ اسکام شروع کر رہے ہیں۔”
کے ٹی آر نے انکشاف کیا کہ حکومت کا منصوبہ تقریباً 9,292 ایکڑ صنعتی اراضی کو ریگولرائز کرنا ہے، جو بالن نگر، جڈیمیٹلہ، صنعت نگر اور اعظم آباد جیسے اہم صنعتی مراکز میں واقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں زمین کی موجودہ مارکیٹ قیمت 40 سے 50 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے، جس کے مطابق مجموعی قیمت 4 سے 5 لاکھ کروڑ روپے بنتی ہے۔
کے ٹی آر نے الزام لگایا کہ وزیرِاعلیٰ اس قیمتی زمین کو حکومت کی پرانی SRO قیمت کے صرف 30% پر دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ اصل مارکیٹ ویلیو اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا:
"یہ واضح کرپشن ہے۔ SRO ویلیو بھی پوری نہیں لی جا رہی—صرف 30% لی جا رہی ہے۔ باقی لاکھوں کروڑ نجی جیبوں میں جائیں گے۔”
کے ٹی آر نے یاد دلایا کہ صنعتی اراضی پہلے روزگار اور پیداوار بڑھانے کے لیے انتہائی کم قیمت پر الاٹ کی جاتی تھی، اور اکثر یہ زمینیں کسانوں سے صنعتی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی تھیں۔
"اب انہی زمینوں کو ذاتی منافع کے لیے ریگولرائز کیا جا رہا ہے۔ عوام کی زمینیں ریئل اسٹیٹ ڈیلرز کے حوالے کی جا رہی ہیں۔”
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بی آر ایس دورِ حکومت میں اسی نوعیت کی تجاویز کو ٹھکرا دیا گیا تھا کیونکہ ’’سرکاری اراضی کسی کی نجی کمائی کے لیے نہیں دی جا سکتی‘‘۔
کے ٹی آر نے HILTP کو ’’کانگریس پارٹی کا ATM‘‘ قرار دیا اور کہا کہ وزیرِاعلیٰ کا واحد ایجنڈا رئیل اسٹیٹ کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے کہا:
"پہلے موسیٰ ندی کے کنارے کی زمینیں، پھر میٹرو ریل کی زمینیں، پھر حیدرآباد یونیورسٹی کی زمینیں، اور اب 9,292 ایکڑ صنعتی اراضی… ریونت ریڈی کی پوری سیاست رئیل اسٹیٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔”
کے ٹی آر نے صنعت کاروں اور ڈیولپرز کو خبردار کیا کہ اگر وہ HILTP کے تحت کوئی معاہدہ کریں گے تو بی آر ایس اقتدار میں واپس آکر اسے منسوخ کر دے گی اور مکمل انکوائری کے بعد تمام ذمہ داروں کے خلاف فوجداری کارروائی کرے گی۔