سیاستمضامین

LAND TITLING ACT. 2022 کو تفصیل سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہےزیرِ بحث قانون آپ کو آپ کی جائیداد سے محروم کرسکتا ہے

٭ اس قانون کی آڑ میں بے نامی جائیدادوں کو بے نقاب کرکے ضبط کیا جاسکتا ہے۔ ٭ کوئی کمیونسٹ ملک بھی اس طرح اپنے شہریوںکو ان کی جائیدادوں سے محروم نہیں کرسکتا۔ ٭ کیا ہم ایک جمہوری مملکت میں رہتے ہیں یا آمریت میں؟

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

LAND TITLING ACT. 2022 کے اقتباسات
-1 یہ ایک عجیب الخلقت قانون ہے۔ اس قانون کو پارلیمان کے کسی بھی ایوان نے منظور نہیں کیا۔ نیتی آیوگ سابق لاء کمیشن نے مرکزی حکومت کے اشاروں پر اس قانون کا مسودہ تیار کیا۔ مرکزی حکومت نے وفاق(Fedralism) کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس قانون کو ریاستوں کے سروں پر تھوپ دیا اور کہا کہ آپ اپنی ریاست میں اس قانون کو ایک معینہ مدت کے اندر رائج کردیں اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو یہ بات باور کی جائے گی کہ آپ نے اس قانون کو منظور کرلیا ہے اور اس قانون پر عمل درآمد کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ صرف اسی قانونی نقص کی وجہ سے یہ قانون لائقِ تنسیخ ہے۔
-2 یہ قانون دیگر معنی میں سارے ملک میں رائج العمل ہے۔ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کی اسمبلی نے اس قانون کو گزشتہ سال ماہِ ستمبر میں منظور کرلیا۔ اس قانون کی مدد سے زائد از ایک صدی سے رائج قوانین مثلاً رجسٹریشن ایکٹ ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ اور اسٹامپس ایکٹ بے معنی اور بے مقصد ہوکر رہ گئے ہیں۔ رجسٹر شدہ دستاویزات کی اساس پر آپ کی جائیدادیں فی الوقت معلق ہیں اور اس وقت تک معلق رہیں گی جب تک کہ اس قانون کے تحت قائم کی گئی اتھاریٹی آپ کو مالک قراردے کر آپ کو اپنی جائیداد کا ٹائٹل(حقِ مالکانہ ) نہیں عطا کرتی۔
-3 حقِ مالکانہ یا ٹائٹل کو (DIGITISE) کیا جائے گا اور آپ کو ایک منفرد طرز کا کارڈ دیا جائے گا جو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ آپ اپنی جائیداد کے مالک ہیں۔
طریقہ کار
-4 آپ کے گھر کوئی عہدیدار نہیں آئے گا اور نہ کوئی نوٹس آئے گی۔ آپ کو از خود یا کسی ایڈوکیٹ جنرل پاور آف اٹارنی کے ذریعہ دستاویزات دفتر کی لائن میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ سب سے پہلی اتھاریٹی لینڈ ٹائٹلنگ افسر ہوگا جو آپ کے کاغذات اور حقِ مالکانہ کا مطالعہ کرے گا اور کئی دیگر دستاویزات پیش کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ اگر یہ عہدیدار آپ کے ادعائے ملکیت سے مطمئن نہیں ہوگا تو آپ کی درخواست مسترد کردے گا۔ اس مرحلہ کے بعد آپ کو (TITLE DISPUTE RESOLUTION OFFICER) سے رجوع ہونا پڑے گا اور اگر وہ بھی مطمئن نہیں ہوگا تو آپ کو ایک ٹریبونل کے روبرو اپنا ادعائے ملکیت پیش کرنا ہوگا۔ اگر ٹریبونل بھی آپ کے ادعائے ملکیت سے مطمئن نہ ہو تو آپ پرا یک اور مہربانی کی گئی ہے کہ آپ ہائیکورٹ سے بذریعۂ اپیل رجوع ہوسکتے ہیں۔
-5 قانون کا لب لباب یہ ہے کہ آپ اپنی جائیداد/جائیدادوں ۔ مکانات۔ دوکانات۔ اراضیات ۔ شہری یا دیہی کسی کے بھی مالک نہیں اور یہ بات حکومت کے صوابدید پر منحصر ہے کہ آپ کو مالک تسلیم کرلے یا آپ کی جائیداد کو سرکاری جائیداد قراردے اور آپ کا حقِ مالکانہ چھین لے۔
-6 اگر اتھاریٹی آپ کے ادعائے ملکیت سے مطمئن ہو تو آپ سے کہا جائے گا کہ اسٹامپس ایکٹ کے مطابق ٹائٹل رجسٹریشن فیس ادا کریں۔ یہاں اس بات کا اندازہ لگانا مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ حکومت کو سارے ملک کی جائیدادوں کے ٹائٹل رجسٹریشن سے کتنی آمدنی ہوگی۔ شائد اتنی ہوگی کہ ملک کے دس سال کے دفاعی اخراجات کی بھرپائی ہوجائے گی اور اگر نہیں تو آپ کی جائیدادیں بحقِ سرکار ضبط کرلی جائیں گی کیوں کہ قانون کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے۔
-7 ریاستِ تلنگانہ میں بھی بالواسطہ یہ قانون منظور تصور کیا جائے گا کیوں کہ متعینہ مدت ختم ہوچکی ہے اور یہ سمجھا جائے گا کہ ریاستِ تلنگانہ بھی دیگر ریاستوں کی طرح اس قانون کو منظور کرچکا ہے۔
جائیدادوں کے تحفظات کا قانونی اور دستوری طریقۂ کار
-1 سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ تمام مالکینِ جائیداد اپنی جائیدادیں بذریعہ زبانی ہبہ میمورنڈم اپنے تمام بیٹوں۔ بیٹیوںمیں تقسیم کردیں۔ دستاویز اس طرح کا بنانا چاہیے جس میں یہ بات درج ہو کہ مالکِ جائیداد نے اپنی خوشی اور رضامندی سے جائیداد اپنے بیٹے ۔ بیٹی کو بذریعہ ہبہ دے دی ہے جسے موہب الیہ نے تسلیم کرلیا ہے اور موہوب الیہ کو اس جائیداد کا قبضہ بھی دے دیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں کیوں کہ ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کا دفعہ(129) اس بات کی اجازت دیتا ہے جس کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھی حفیظہ بی بی مقدمہ میں نظیر قائم کرتے ہوئے آندھرا پردیش کے ایک اجلاسِ کاملہ کے فیصلہ کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ہر ہبہ کے لئے رجسٹریشن کا لزوم ہے ۔ لہٰذا یہ سیدھا سادہ راستہ ہے۔ اس عمل پر موجودہ زیرِ بحث قانون کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ کسی بھی ریاست کا منطورہ قانون سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر نہیں کرسکتا۔
ملک کے قوانین سے واقفیت اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے آج ضروری ہوگئی ہے۔ سابق میں صرف قانونِ اربن لینڈ سیلنگ 1976ء سے عدم واقفیت کی وجہ شہرِ حیدرآباد میں ہزاروں ایکر اراضی پر حکومت نے قبضہ کرلیا۔ اگر حیدرآباد کے مالکینِ اراضی فہم و فراست سے کام لیتے یا قانونی رائے حاصل کرتے تو اپنی اراضیات کو فی کس ایک ہزار مربع میٹر اپنے رشتہ داروں۔ دوست احباب۔ دینی اداروں کو دے کر کروڑوں اربوں روپیہ مالیتی اراضی کا تحفظ کرسکتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور حیدرآبادی حضرات ’’جب کا جب دیکھا جائے گا‘‘ کہتے ہی رہ گئے اور ریوینیو ڈپارٹمنٹ نے یکطرفہ کارروائی کرکے نواب صاحبان ۔ جاگیردار صاحبان کی اراضیات کو فاضل اراضی قراردے کر حکومتی اراضی کے زمرہ میں شامل کردیا۔ اگر بروقت کارروائی ہوتی تو حیدرآباد کے مسلمانوں کی معاشی حالت کتنی بہتر ہوسکتی تھی۔
موجودہ اتل قانون کو بے اثر کرنے کے لئے میمورنڈم آف گفٹ ہی واحد تریاق ہے۔ اس دستاویز کو بہت ہی احتیاط سے تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں زیادہ تر قانونی بحث اور نظائر کا شمول ضروری ہے۔ ڈاکیومنٹ رائٹرس یہ کام نہیں کرسکتے لہٰذا اس عمل کی تکمیل کے لئے قانون دانوں کی خدمت کا حصول ناگزیر ہے۔ خصوصاً نوٹری دستاویز کے حامل جائیدادوں کے لئے یہ عمل ضروری ہے۔ ایک اور بات قابلِ غور ہے حکومت اس خلافِ دستور قانون سے بے نامی جائیدادوں کو بے نقاب کرکے ضبط کرلینا چاہتی ہے لہٰذا ہر قدم پر قانونی رائے کا حصول ناگزیر ہے۔ اگر اتھاریٹی کے روبرو حاضر ہونا بھی ہو تو قانون دانوں کے ذریعہ ہی نمائندگی ہونی چاہیے۔
نوٹ:- (1) اگر آپ کی جائیداد سے متعلق کسی عدالت میں مقدمات بھی زیرِ دوراں ہوں تو آپ کو مقررکردہ اتھاریٹی کے روبرو کھڑے ہوکر تمام تفصیلات پیش کرنے کا لزوم ہے۔
(2) قانون کے مطابق جب تک آپ کو (TITLE) نہیں دیا جاسکتا آپ کی جائیداد کے دستاویزات کسی بینک سے قرض حاصل کرنے میں ڈپازٹ نہیں کروائے جاسکتے۔
نوٹری دستاویزی اساس کی جائیدادیں
-1 سب سے زیادہ پریشانی کی بات ان حضرات کو لاحق ہوگی جن کے پاس نوٹری دستاویزات پر خریدی ہوئی جائیدادیں ہیں۔ مقرر کردہ اتھاریٹی ایسی جائیدادوں پر آپ کا حقِ مالکانہ تسلیم نہیں کرے گی۔ ایسی صورت میں کہ رجسٹرشدہ دستاویز کی اس اتھاریٹی کے روبرو کوئی حیثیت نہیں تو نوٹری دستاویزات کی اس اتھاریٹی کے روبرو کیا حیثیت ہوگی۔
-2 لہٰذا ایسی جائیدادوں کو محفوظ کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ نوٹری دستاویزی اساس کی جو جائیدادیں ہیں ان کو بذریعۂ زبانی ہبہ میمورنڈم اپنی اولاد یا دیگر رشتہ داروں میں تقسیم کردینا چاہیے۔ آپ کے کیس کی نمائندگی کرتے وقت آپ کے ایڈوکیٹ اتھاریٹی کو مجبور کردیں گے کہ وہ ہبہ میمورنڈم کو تسلیم کریں کیوں کہ اس کی اساس دفعہ129 ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ہے۔ اگر ایسے دستاویز کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو ہائیکورٹ کے حکم سے اتھاریٹی کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایسے دستاویز کو قبول کریں۔
اڈانی کے زوال کے بعد کیا آپ کی رقومات اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں محفوظ ہیں؟
رواں کالم کے ذریعہ آپ حضرات کو بارہا وارننگ دی گئی تھی کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں بھاری رقومات کے فکسڈ ڈپازٹ کا رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے کیوں کہ ڈپازٹ گیارنٹی کی حد اب صرف پانچ لاکھ روپیہ ہے ۔ جس کی حد ایک لاکھ روپیوں سے بڑھا کر اس حد تک لائی گئی ہے۔ اب بھی اس بات کی کوئی گیارنٹی نہیں کہ عندالمطالبہ وہ رقم فوراً ادا کردی جائے گی بلکہ تین ماہ بعد ادا کی جائے گی۔ مودی کال میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے لاکھوں کروڑ روپیہ گوتم اڈانی کی کمپنی کو قرض دیا تھا۔ لیکن مودی جی نے اپنے دوست کے قرض کو معاف (WRITE OFF) کردیا تھا۔ اب جبکہ اڈانی تقریباً ڈوب گیا ہے اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور لائف انشورنس کارپوریشن کی قرض کی رقومات خطرے میں پڑگئی ہیں۔ ریزروبینک آف انڈیا نے اس ضمن میں انکوائری شروع کردی ہے اور (SEBI) نے بھی اڈانی کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے ۔
لہٰذا پھر دوبارہ آپ کو رائے دی جارہی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے اپنا پیسہ نکال کر پوسٹ آف ڈپازٹ اسکیم میں مصروف کیجئے کیوں کہ پوسٹ آفس پازٹ کی گیارنٹی گورنمنٹ آف انڈیا نے دی ہے ۔
ہمیں امیدہے کہ آپ اس رائے پر ضرور عمل کریں گے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰