تلنگانہ

تلنگانہ میں تعلیمی نظام کی لوٹ: فیسوں میں اضافہ اور کتابوں کی اجارہ داری کے خلاف طلبہ تنظیموں کا احتجاج، اسکولس بند

آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (AISF) اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (SFI) سمیت دیگر تنظیموں نے یہ بند تعلیمی شعبے میں درپیش سنگین مسائل، جیسے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، وظائف کی عدم ادائیگی اور سرکاری اداروں میں ناقص انفراسٹرکچر کے خلاف بطور احتجاج کیا ہے۔

حیدرآباد: طلبہ تنظیموں کی جانب سے ریاست گیر بند کی کال نے بدھ کی صبح تلنگانہ کے طلبہ، والدین اور تعلیمی اداروں کو شدید بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (AISF) اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (SFI) سمیت دیگر تنظیموں نے یہ بند تعلیمی شعبے میں درپیش سنگین مسائل، جیسے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، وظائف کی عدم ادائیگی اور سرکاری اداروں میں ناقص انفراسٹرکچر کے خلاف بطور احتجاج کیا ہے۔

متعلقہ خبریں
مثالی پڑوس، مثالی معاشرہ جماعت اسلامی ہند، راجندر نگر کا حقوق ہمسایہ ایکسپو
کوہ مولا علی: کویتا کا عقیدت بھرا دورہ، خادمین کے مسائل اور ترقیاتی کاموں کی سست روی پر اظہار برہمی
فراست علی باقری نے ڈاکٹر راجندر پرساد کی 141ویں یومِ پیدائش پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا
فیوچر سٹی کے نام پر ریئل اسٹیٹ دھوکہ، HILT پالیسی کی منسوخی تک جدوجہد جاری رہے گی: بی آر ایس
عالمی یومِ معذورین کے موقع پر معذور بچوں کے لیے تلنگانہ حکومت کی مفت سہولتوں کا اعتراف مولانا مفتی صابر پاشاہ

 والدین اور طلبہ میں بے یقینی کی کیفیت

منگل کی رات سے ہی والدین کی جانب سے اسکول اور کالج پرنسپلز کو فون کالز کا سلسلہ جاری رہا، جس میں وہ یہ جاننے کے لیے پریشان تھے کہ آیا بدھ کو تعلیمی ادارے کھلیں گے یا نہیں۔ اگرچہ حکومتِ تلنگانہ نے سرکاری طور پر چھٹی کا اعلان نہیں کیا، لیکن بیشتر سرکاری اور نجی اسکولوں اور جونیئر کالجوں نے ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اور کسی بھی رکاوٹ سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر بند رہنے کا فیصلہ کیا۔

 احتجاجی تنظیموں کے کلیدی مطالبات

احتجاج کرنے والی طلبہ یونینوں نے حکومت اور تعلیمی اداروں کے سامنے درج ذیل مطالبات رکھے ہیں:

   زیر التواء اسکالر شپس اور فیس ری ایمبرسمنٹ کی فوری ادائیگی۔

   اسکول یونیفارم اور کتابوں کی فروخت پر نجی اسکولوں کی اجارہ داری کا خاتمہ۔

   سرکاری ہاسٹلوں میں بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کی بہتری۔

   طلبہ کے لیے TSRTC بس پاس کی سہولیات کو بہتر اور یقینی بنایا جائے۔

 تعلیم کے نام پر لوٹ مار: کتابوں اور یونیفارم کا کاروبار

تنظیموں کا ماننا ہے کہ نجی اسکول من مانی فیس وصول کر رہے ہیں جبکہ کتابوں اور یونیفارم کی لازمی خرید و فروخت کے ذریعے ہر سال والدین پر کروڑوں روپوں کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ہر سال کتابوں کا نیا سیٹ اسکول سے ہی خریدیں، جس کی قیمت پانچ ہزار روپے سے بھی زائد ہو سکتی ہے۔

الزام ہے کہ اسکول انتظامیہ کا کتابوں کے پبلشرز اور پرنٹرز سے براہِ راست گٹھ جوڑ ہوتا ہے، جس کے ذریعے اسکول انتظامیہ اور ٹھیکیدار خوب پیسہ کماتے ہیں۔ یہ عمل تعلیم کے نام پر والدین کو لوٹنے کے مترادف ہے جو حکومت و انتظامیہ کی ناک کے نیچے سالہا سال سے جاری ہے۔

 مضبوط سرکاری نظام کی ضرورت

رپورٹ کے مطابق، اگر حیدرآباد میں بھی مہاراشٹرا اور کرناٹک کی طرز پر سرکاری اسکول مضبوطی سے کھڑے ہوتے تو شاید نجی اسکولوں کی یہ من مانی اور "داداگری” اس قدر نہ بڑھتی۔ اگرچہ ٹیمریز (TMREIS) اور اویسی اسکولس آف ایکسیلینس جیسی معیاری مثالیں موجود ہیں، لیکن طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لحاظ سے یہ ادارے انتہائی کم ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بند کا حکومت اور خانگی اسکول انتظامیہ پر کچھ اثر ہوتا ہے یا پھر وقت اور حالات کی دھول اسے بھی ماضی کے دیگر احتجاجوں کی طرح فراموش کر دے گی۔~