مذہب

بلڈر کی تاخیر کی وجہ سے گاہک کو پہنچنے والا نقصان

آج کل اس طرح کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں؛ اس لئے معاملہ کو طے کرتے وقت ہی اس کو ذہن میں رکھنا چاہئے، اور وہ یہ کہ معاہدہ کے وقت یہ بات لکھ دی جائے کہ بلڈر فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو مکان تیار کرکے حوالہ کردے گا

سوال:- موجودہ دور میں بڑے شہروں میں بنے بنائے مکان کو خریدنے کا رواج زیادہ ہے، بلڈر زمین خریدتا ہے ، مکان کا نقشہ بناتا ہے ، اس کی فروخت شروع کرتا ہے ؛ لیکن مقررہ وقت پر تعمیر کرکے نہیں دیتا ہے، اس کی وجہ سے خریدار کو زیادہ مدت تک کرایے کے مکان میں رہنا پڑتا ہے اورنقصان ہوتا ہے اور مال بھی ضائع ہوتا ہے ،

بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کافی مدت کے بعد بلڈر کہتا ہے کہ قانونی تقاضے پورے نہیں ہوپائے ہیں؛ اس لئے آپ اپنے پیسے واپس لے لیجئے ، جس وقت یہ رقم دی گئی تھی، اس وقت تو اس رقم میں اس طرح کا مکان مل سکتا تھا ؛ لیکن اب اتنے پیسوں میں مکان نہیں مل سکتا ، ایسی صورت میں کیا خریدار بلڈر سے اپنی اصل رقم کے علاوہ تاوان وصول کرسکتا ہے ؛ تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہو۔ (دانش علی، ہائی ٹیک سیٹی)

جواب:-آج کل اس طرح کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں؛ اس لئے معاملہ کو طے کرتے وقت ہی اس کو ذہن میں رکھنا چاہئے، اور وہ یہ کہ معاہدہ کے وقت یہ بات لکھ دی جائے کہ بلڈر فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو مکان تیار کرکے حوالہ کردے گا ، اگر اس نے مثلاً ایک ماہ تاخیر کی تو قیمت پانچ فیصد کم دی جائے گی ، دو ماہ کی تاخیر میں دس فیصد کی کمی ہوجائے گی ، اس معاہدہ پر دونوں فریق کا دستخط ہو ، حضرت امام ابوحنیفہؒ کے دونوں شاگرد حضرت امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک یہ معاہدہ معتبر ہے:

ولو أعطی خیاط ثوباً فقال : إن خطتہ الیوم فلک درھم ، و إن خطتہ غداً فلک نصف درھم ، قال ابو حنیفۃ : الشرط الأول صحیح ، والثانی فاسد، وقال أبو یوسف و محمد : الشرطان جائزان ۔ (بدائع الصنائع : ۴؍۳۵)

اگر کوئی شخص درزی کو کوئی کپڑا دے اور کہے: اگر تم نے آج سِل دیا تو ایک درہم اُجرت ہوگی اور کل سِل کر دیا تو نصف درہم اُجرت ہوگی تو امام ابوحنیفہؒ کے نزیک صرف پہلی شرط معتبر ہوگی اور دوسری شرط فاسد ہوجائے گی مگر صاحبینؒ کے نزدیک دونوں شرطوں کا اعتبار ہوگا۔

اور اگر پہلے سے یہ بات معاہدہ میں شامل ہو تو تاخیر کی وجہ سے یا وعدہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے جو نقصان ہو، اس کا ہرجانہ وصول کیا جاسکتا ہے ؛ چنانچہ انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے :

یجوز أن یتضمن عقد الاستصناع شرطا جزائبا بمقتضی ما اتفق علیہ العاقدان مالم تکن ھناک ظروف قاھرہ واللّٰه اعلم ۔ (انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ کے شرعی فیصلے : ۲۱۶)

اس بات کی گنجائش ہے کہ عقد استصناع میں تاوان کی شرط شامل ہو، جن پر فریقین کا اتفاق ہوگا ، جب تک کوئی مجبوری کی صورت پیش نہ آئے ۔

اور اگر پہلے سے ایسی شرط نہیں ہے تب بھی خریدار اپنے نقصان کی تلافی کا بلڈر سے مطالبہ کرسکتا ہے ، شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :

لو تلف المستاجر فیہ الأجیر وتقصیرہ یضمن ، سواء کان الأجر خاصا او مشترکاً وسواء کانت الإجارۃ صحیحۃ أو فاسدۃ ۔ (شرح مجلہ : ۲؍۷۱۰)

جو چیز اُجرت پر لی گئی ہو، اگر وہ اجیر کی زیادتی اور کوتاہی کی وجہ سے ضائع ہوجائے، چاہے اجیر خاص ہو یا مشترک، اور چاہے اجارہ صحیح ہو یا فاسد ۔

مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے بھی معاصر علماء کے حوالے سے لکھا ہے کہ وعدہ خلافی کی وجہ سے دوسرے فریق کو جو خسارہ ہوتا ہے، وہ اس کو صول کرسکتا ہے:

والذی أجازہ العلماء المعاصرون عند الحاجۃ فی جعل الوعد ملزماً أن یحتمل الخسارۃ الفعلیۃ التی أصاب الطرف الآخر بسب التخلف الخ ۔ ( فقہ البیوع : ۱؍۱۱۲)

معاصر علماء نے بوقت ضرورت اس بات کی اجازت دی ہے کہ وعدہ کو اس طورپر لازم قرار دیا جائے کہ دوسرے فریق کو وعدہ خلافی کی وجہ سے جو نقصان پہنچے، وہ فریق اس نقصان کو برداشت کرے ۔

اس لئے مکان کو خریدنے میں جو زیادہ قیمت لگے، بلڈر سے وہ پیسے وصول کئے جاسکتے ہیں ۔

a3w
a3w