حیدرآباد

’’ملک سے محبت ایمان کے خلاف نہیں‘‘ لوک سبھا میں ’وندے ماترم‘ پر بحث، اسد الدین اویسی کی زبردست تقریر: ویڈیو

سبھا میں پیر کے روز قومی ترانہ ’وندے ماترم‘ کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر خصوصی مباحثہ ہوا، جس میں اسپیکر اوم برلا نے اسے ملک کی یکجہتی، طاقت اور آزادی کی جدوجہد کا مضبوط نشان قرار دیا۔

لوک سبھا میں پیر کے روز قومی ترانہ ’وندے ماترم‘ کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر خصوصی مباحثہ ہوا، جس میں اسپیکر اوم برلا نے اسے ملک کی یکجہتی، طاقت اور آزادی کی جدوجہد کا مضبوط نشان قرار دیا۔ لیکن بحث جلد ہی این ڈی اے اور انڈیا بلاک کے درمیان تلخ سیاسی جھڑپ میں تبدیل ہوگئی۔
اسی دوران اے آئی ایم آئی ایم صدر اسد الدین اویسی نے نہایت تفصیل سے آئینی اور تاریخی دلائل پیش کرتے ہوئے اہم نکات اٹھائے۔

متعلقہ خبریں
اردو جرنلسٹس فیڈریشن کا ایوارڈ فنکشن، علیم الدین کو فوٹو گرافی میں نمایاں خدمات پر اعزاز
جامعتہُ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد کے اسلامی کیلنڈر 2026 کی رسمِ اجرا
غریبوں اور بے سہارا افراد کے لیے سہارا بنا تانڈور کا اے ایس جی ایم کے چیریٹیبل ٹرسٹ
میوا کی جانب سے زیڈ ایچ مسعود کے اعزاز میں شاندار تہنیتی تقریب،اکتالیس سالہ تعلیمی خدمات کا بھرپور اعتراف
مساجد کی رونق باجماعت نماز سے، ایمان کی حفاظت اسی میں ہے: مفتی صابر پاشاہ

اویسی نے سب سے پہلے وزیراعظم کے جناح سے متعلق بیان کی مذمت کی اور کہا کہ ”ہم جناح کے مخالف ہیں، مگر تاریخ یہ ہے کہ 1942 میں جناح کی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ حکومتیں بنائیں“۔ اویسی نے نظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے حقائق پر بات کرنی چاہیے۔

انہوں نے وزیر دفاع کے اس بیان پر بھی شدید اعتراض کیا جس میں ام المومنین اور ’امّ الکتاب‘ کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیے گئے۔ اویسی نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے رسول اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین ’’مسلمانوں کی ماں‘‘ کے درجے کی ہیں مگر ان کی عبادت نہیں کی جاتی، اسی طرح قرآن امّ الکتاب اللہ کا کلام ہے مگر اس کی عبادت نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بیانات ناواقفیت اور مذہبی جہالت کا ثبوت ہیں۔

اویسی نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ بھارت کا آئین ‘We the People’ سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ کسی دیوی دیوتا کے نام سے۔ انہوں نے بتایا کہ دستور ساز اسمبلی نے جان بوجھ کر کسی مذہبی علامت، وندے ماترم، یا دیوی کے نام سے آئین کی شروعات کرنے کی تجویز مسترد کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا دیباچہ آزادی، اظہار، عقیدہ، ایمان اور عبادت کی ضمانت دیتا ہے، اس لیے کسی شہری کو کسی مذہبی علامت کی عبادت یا کسی مخصوص الفاظ کے گانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

اویسی نے عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ

  • 1986 میں سپریم کورٹ نے ’جہوہ وٹنس‘ کیس میں کہا کہ قومی ترانہ پڑھنا ضروری نہیں، صرف احترام کافی ہے۔
  • 2017 میں سپریم کورٹ نے وندے ماترم پر کوئی لازمی حکم دینے سے انکار کیا۔
    انہوں نے کہا کہ قانون میں کہیں بھی قومی گیت کی جبری ادائیگی کا ذکر نہیں۔

اپنی تقریر میں اویسی نے تحریکِ آزادی کے بے شمار مسلم مجاہدین جیسے مولوی علاؤالدین، عباس خان، فضل حق خیرآبادی، محمود الحسن، حسین احمد مدنی، عنایت اللہ کافی کے حوالے دیے اور پوچھا کہ
”اگر قومیت کا معیار وندے ماترم ہے تو ان عظیم قربانیوں کی قومیت کیا تھی؟ “

انہوں نے کہا کہ بھارت تمام مذاہب، طبقات اور زبانوں کا ملک ہے، کوئی ایک مذہبی علامت پوری قوم کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ اگر ملک کو ’’دیوی‘‘ کہہ کر اس کے سامنے سجدے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں دونوں کے خلاف ہوگا۔

اویسی نے واضح کیا کہ وہ مسلمان ہیں، اسلام کو مانتے ہیں، مگر ملک سے محبت ایمان کے خلاف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’حب الوطنی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ

  • ظلم ختم ہو
  • غربت اور بے روزگاری ختم ہو
  • ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جائے
  • دہشت گردی اور استحصال کا خاتمہ کیا جائے

انہوں نے کہا کہ اگر صرف ایک ہی ’’پھول‘‘ کھلنے دیا جائے تو ملک صحرا بن جائے گا۔ بھارت کا حسن کثرت میں وحدت ہے۔

اپنی تقریر کے اختتام پر اویسی نے کہا کہ
وفاداری کا سرٹیفیکیٹ ہم سے مت لیجیے—ہماری وفاداری آزادی کی تحریک کی قربانیوں میں ثبت ہے۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ آئین کی روح اور مذہبی آزادی کا احترام کیا جائے اور وندے ماترم کو سیاسی ہتھیار نہ بنایا جائے۔