عروج فاطمہ
میں نے شادی کے بعد ایک مرتبہ اپنی زوجہ کو مذاقاً کہا کہ یہ تو آپ کےگھر والے تھے، جنہوں نے آپ کا رشتہ ہمیں دے دیا اور روایتی گھرانوں کی طرح سب کچھ طے کرکے رسمی طور پر آپ سے آپ کی رضامندی کا پوچھا ہوگا۔ورنہ آپ مجھے پہلے سے جانتی ہوتیں تو کبھی مجھ سے شادی نہ کرتیں۔ یہ سن کر وہ مسکرا پڑیں اور کہنے لگیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا…
مجھے آپ کے بارے میں سب کچھ بتا کر یہ کہا گیا تھا تمہیں پسند ہو گا تو ہی شادی کریں گے ورنہ نہیں کریں گے،پھر وہ کہنے لگیں کہ ایسی بات ہوتی تو ایک دفعہ ایک ایسے گھرانے سے میرا رشتہ آیا تھا کہ انکار کی گنجائش نہیں تھی، مگر پھر بھی میرے گھر والوں نے قوی خدشات کی وجہ سے انکار کیا اور میری ناپسندیدگی کا پورا پورا احترام کیا۔ بعد میں اس گھرانے نے اپنی بہو کے ساتھ وہی کیا، جس کا ہمیں خدشہ تھا۔
اس بےچاری پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور جیتے جی اسے جہنم میں دھکیل دیا گیا۔ میری زوجہ کہتی ہیں کہ یہ سب دیکھ کر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرے گھر والوں کی سمجھداری نے مجھے کتنی بڑی آزمائش سے بچا لیا۔ میری زوجہ کی یہ بات بالکل درست ہے، کیوں کہ جب میرا رشتہ ہونے لگا تھا تو میں نے اپنی والدہ محترمہ اور سسرال کے ایک فرد جن سے میری تھوڑی بےتکلفی تھی، سے کہا تھا کہ، لڑکی کو میری عادات، مزاج، ذریعہ معاش اور گھربار وغیرہ کے متعلق تمام تفصیلات بتائیں اور پھر اس کی پسندیدگی جان کر حتمی طور پر رشتہ طے کریں اور بالکل ایسے ہی کیا گیا۔
ہمارے ہاں عمومًا سارے معاملات طے کرکے محض ایک رسم کے طور پر بہن بیٹی سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی کیا پسند ہے؟ سب جانتے بھی ہیں اور معلوم بھی ہوتا ہے کہ اس سوال کا ہمیشہ ایک ہی ممکنہ جواب ہے اور وہ ہے ’’جو آپ لوگوں کی مرضی ‘‘۔ مائیں بیٹیوں کو پہلے سے ہی اس جواب کی باقاعدہ مشق کرواتی ہیں کہ جب سب گھر والوں کے سامنے تمہاری مرضی پوچھی جائے تو اس کا یہی جواب دینا ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں اس کے علاوہ کسی دوسرے جواب کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ اس نے پہلے سے ہی کوئی ڈھونڈ رکھا ہے یا یہ تو خود ہی بڑی بنی ہوئی ہے۔ پھر گھر والے ہی اس کا جینا مشکل کردیتے ہیں۔
لڑکی کے اگر وہم و گمان میں بھی ہوتا کہ وہ اپنی ناپسندیدگی بتانے کا ناقابلِ معافی جرم کرکے اپنے ہی گھر والوں کی نظروں سے گر جائے گی تو وہ کیسے انکار کرے گی، یوں چپ چاپ رضامند ہو جاتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بیٹیوں کا رشتہ طے کرنے میں ہر پہلو کو مد نظر رکھیں ،کیوں کہ وہ اپنی پسند اورنا پسند کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔ کپڑوں کا ایک جوڑا خریدنے میں وہ دکانداروں سے کتنے کپڑے نکلواتی ہیں، مگر جس انسان کے ساتھ پوری زندگی گزارنی ہوتی ہے جب اس کی پسند نا پسند کی بات آتی ہے تو خاموش رہتی ہیں و ر گھروالوں کی پسند میں اپنی پسند شامل کردیتی ہیں۔
بغیر یہ سوچے سمجھے کہ وہ اپنی زندگی اس کے ساتھ ہنسی خوشی گزار بھی سکیں گی یا نہیں۔ جان بوجھ کر کبھی بھی کوئی بھی والدین بیٹی کا رشتہ غلط جگہ ہرگز نہیں کرتے، مگر اچھی طر ح جانچ پڑتال نہ کرنے سے محض نادانی میں اپنے ہاتھوں اپنی بچیوں کو ظالموں کے سپرد کر دیتے ہیں اور وہ تنہائی میں ہی سسکیاں بھرتے بھرتے زندگی گزار دیتی ہیں، مگر والدین سے شکوہ تک نہیں کرتیں، یہ معلوم بھی نہیں ہونے دیتیں کہ ان کے نادانی میں کیے گئے ایک غلط انتخاب نے ان کے ارمانوں کا جنازہ نکال دیا ہے…
لہٰذا چھی طر ح جانچ پڑتال کرکے بیٹیوں کا رشتہ کرنا چاہیے۔ رشتہ طے کرتے وقت لڑکے اور لڑکی دونوں کی رضا مندی بھی جاننا ضروری ہے۔ اور انہیں یہ اعتماد دیں کہ آپ ان کی رضا میں ہی راضی ہوں گے اور ان کا فیصلہ آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہو گا۔ یاد رکھیں کہ آگے کی زندگی ان دونوں کو بسر کرنی ہے اور ہمارا ایک غلط فیصلہ ان کی پوری زندگی کو بر باد کرسکتا ہے۔
٭٭٭