مذہب

مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقلؒ دینی، سماجی اور سیاسی جدوجہد کی درخشاں مثال

حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقلؒ کی دینی، علمی، ملی ،سماجی خدمات پرکچھ روشنی ڈالنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ تبلیغ دین کیلئے آپ نے جوقربانیاں دی ہیں اس کے باعث آج بھی آپ دکن کے عوام کے دلوں میں زندہ ہیں ۔

مولانا محمد ریاض احمد قادری حسامی
(خلیفہ مولانا حسام الدین ثانی عاقل جعفرپاشاہ)

حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقلؒ کی دینی، علمی، ملی ،سماجی خدمات پرکچھ روشنی ڈالنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ تبلیغ دین کیلئے آپ نے جوقربانیاں دی ہیں اس کے باعث آج بھی آپ دکن کے عوام کے دلوں میں زندہ ہیں ۔ آپ ہم سے جدا ہوکرتقریباً چودہ سال کا عرصہ ہوچکا ہے اس کے باوجود ملت کیلئے قربانی کی جب بات کی جاتی ہے تو ہر کوئی آپ کی مثال پیش کرتا ہے۔ 12 مارچ 2010ء کو تقریباً 82 سال کی عمر میں دکن کے عوام نے آپ کونم آنکھوں سے وداع کیا ۔آپ کی خدمات کا دائرہ آج بھی قوم و ملت کے لیے روشنی کا مینار ہے۔

مولانا کا پیدائشی مقام حیدرآباد ہے، جہاں آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد علامہ حسام الدین فاضلؒ کے زیر سایہ حاصل کی۔ آپ کی دینی تعلیم کا آغاز جامعہ نظامیہ سے ہوا۔ بعدازاں انہوں نے عصری تعلیم کیلئے جامعہ عثمانیہ کا رخ کیااور وہاں سے بی اے ، ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ علمی قابلیت،دانشوری اور بیباکانہ بیانات نے آپ کو عوام میں بے پناہ مقبولیت عطا کی، اور آپ نے زندگی کے آخری لمحہ تک ملت کی فکر کرتے ہوئے ملت کی رہبری ورہنمائی کی۔

مولانا عاقلؒ کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ نے ہمیشہ قوم و ملت کے مفادات کو اولین ترجیح دی۔ آپ نے اپنے علمی و دینی سفر کے دوران بہت سے دینی ادارے قائم کیے، جن میں سب سے مشہور ’’جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد‘‘ ہے۔ یہ ادارہ جنوبی ہند کا قدیم و بافیض ادارہ ہے، جہاں سے بے شمار طلبہ دینی ودنیاوی علوم سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ یہاں سے فارغ طلبہ نے ساری دنیا میں اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی رکن تاسیسی تھے اور کئی دیگر دینی اداروں کے سرپرست رہے۔

آپ کی تقریر ایک بار جو سن لیتا وہ آپ کے فن خطابات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاتھا۔ لوگ متحدہ آندھراپردیش کے کونہ کونہ سے آپ کی تقاریر سننے آتے تھے۔ آپ کے الفاظ میں ایسی تاثیر تھی کہ جب آپ مائیک سنبھالتے تو ہر سوتا جاگ جاتا۔جہاں جہاں تک آپ کی آواز جاتی لوگ وہیں سڑکو ں پراپنی گاڑیوں پررک کرآپ کو سماعت فرماتے تھے۔ آپ کی تقاریر میں حکمت، موعظت اور اصلاح کے موتی شامل ہوتے تھے، اور آپ نے ہمیشہ لوگوں کو ایک نئی راہ دکھائی۔ آپ کی تقریریں نہ صرف علمی و دینی موضوعات پر ہوتیں بلکہ انہوں نے معاشرتی مسائل کی بھی گہرائی سے نشاندہی کی۔آپ نے متحدہ آندھراپردیش کے چھوٹے چھوٹےدیہاتوں کوپہنچ کر تبلیغ کا کام کیا ۔

مولانا عاقلؒ کی زندگی میں کئی اہم مراحل آئے۔ آپ کی خدمات کا دائرہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے دینی مدارس کے سالانہ جلسوں کی صدارت کی اور ملت کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، حتیٰ کہ بیماری کی حالت میں بھی آپ نے عوام کی خدمت کی۔

آپ کی بے شمار قربانیاں آج بھی قوم کی زندگیوں میں نمایاں ہیں، اور آپ کے لگائے ہوئے علم کے پودے آج شجر سایہ دار بن چکے ہیں۔
آپ کی شخصیت میں تواضع، سادگی، علم و عمل اور عشقِ رسول کی خوبیاں نمایاں تھیں۔ آپ ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی بات کرتے رہے اور قوم کو ایک جٹ کر متحد کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی دینی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دکن کے مؤرخین بھی آپ کے کارناموں کو درج کئے بغیر دکن کی تاریخ مکمل نہیں کر سکتے۔

آپ کی وفات کے بعدہندوستان کی تمام مذہبی وسماجی تنظیموں نے شدت سے آپ کی کمی محسوس کی۔ آپ کی شخصیت نے قوم و ملت کو ایک نئی روشنی دی، اور آپ کی خدمات آج بھی جاری ہیں۔ آپ کی زندگی کا پیغام ہے کہ علم کی روشنی کبھی بھی ماند نہیں ہوتی، اور جو لوگ قوم و ملت کی خدمت کرتے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔

مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل ؒ کی زندگی کا ایک اہم پہلو ان کی سیاسی جدوجہد ہے۔ انہوں نے ہمیشہ حق اور انصاف کی خاطر آواز بلند کی، خواہ اس کا مطلب حکومتی طاقت کے سامنے کھڑے ہونا کیوں نہ ہو۔ ان کی بے باکی اور عزم نے انہیں کئی بار مشکلات میں مبتلا کیا، جس کی وجہ سے انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ حکومت کی ناپسندیدہ پالیسیاں اور مسلم کمیونٹی کے مسائل کے خلاف ان کی جدوجہد نے انہیں عوام میں ایک متبادل لیڈر کے طور پر ابھارا۔نس بندی قانون کے خلاف آپ نے ہندوستان میں سب سے زیادہ احتجاج کیا۔ جس کی وجہ سے مرکزی حکومت بھی پریشان ہوگئی تھی اور مولانا کوجیل میں کئی ماہ تک بند کر دیاگیا۔

جیل کی قید: عزم کا مظہر

مولانا عاقل کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں جیل جانا پڑااور کئی قسم کے مسائل سے دوچار کیا گیا۔ یہ قید ان کی اصولی جدوجہد کی علامت بنی جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنے عقائد اور قوم کے حقوق کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ ان کے اس عزم نے لوگوں کو حوصلہ دیا اور انہیں اپنے حقوق کے لئے لڑنے کا سبق سکھایا۔

مولانا عاقل کا سماجی کردار سماجی اصلاحات کی راہ پر

مولانا عاقل کا سماجی کردار بھی ان کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہے۔ انہوں نے دکن کی ثقافت اور روایات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی کوشش کی۔ ان کا مقصد نہ صرف مسلم معاشرے کی فلاح و بہبود تھا بلکہ وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی علم بلند کرتے رہے۔ ان کی مساعی نے بہت سے لوگوں کو صحیح راہ دکھائی اور سماجی اصلاحات کی راہ ہموار کی۔

اتحاد و اتفاق کی علامت

مولانا عاقل کی شخصیت کو اتحاد و اتفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مختلف طبقہ کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی، جس سے ایک مضبوط مسلم کمیونٹی کی تشکیل ممکن ہوئی۔ ان کی قیادت میں، مسلم عوام نے مل کر کئی اہم مسائل کا سامنا کیا، جو انہیں مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔

مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقلؒ کے سیاسی و سماجی اقوال

مولانا عاقلؒ کی بصیرت اور حاضر جوابی نے ہمیشہ سماجی مسائل پر روشنی ڈالی اور سیاسی چالوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کے اقوال نے نہ صرف ہنسی مذاق کا عنصر شامل کیا بلکہ معاشرتی ناہمواریوں کی نشاندہی بھی کی۔آپ عام زبان میں اور لطیفوں کے سہارے کئی اہم معاملات کی طرف اشارہ کرتے تھے۔آ پ کی مجلس میں موجود عوام دونوں کیفیات سے دوچار ہوتے تھے ۔ایک طرف وہ کئی اہم سنجیدہ مسائل پر اپنی بلند آواز سے سب کو مسحور کردیتے تھے تووہیں دوسری طرف حیدرآباد ی زبان میں چھوٹے چھوٹے لطیفے مثالوں کے ذریعہ پیش کرکے سب کے ہونٹوں پرمسکراہٹ بکھیردیتے تھے۔

مولانا نے نس بندی پر جوابی نعرہ دیا تھا کہ ’’اگلا بچہ ابھی ابھی، بارہ کے بعد کبھی کبھی‘‘ یہ نعرہ تھا یا کوئی اسرافیل کا صُور جس کی گونج پورے ملک میں پھیل گئی اور ایک کہرام سا مچ گیا۔ مرکزی حکومت حرکت میں آگئی اور مولانا کی گرفتاری عمل میں آئی۔
ایمرجنسی کے دور میں: مولانا عاقل نے کہا کہ ’’نس بندی کا عمل مغائر اسلام ہے‘‘ اور صدر جمہوریہ کو لاجواب کردیا۔

مسلمانوں کی تعداد: ’’اگر ایک مسلمان کے گھر میں دس بچے ہیں اور ایک غیر مسلمان کے گھر صرف دو بچے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟‘‘

ایک ملاقات میں: جب وزیر اعلیٰ نے تحریر پڑھنے میں وقت ضائع کیا تو مولانا نے کہا ’’پڑھتا آج‘‘۔

پولیس کے رویے پر: ’’جاناریڈی اب انجانی ریڈی ہوگئے ہیں‘‘۔

برقی مسائل پر: ’’اب آندھرا پردیش ‘’’اندھیرا پردیش‘‘ بنتا جارہا ہے۔‘‘

قرآنی اوراق کے معاملے میں: ’’بیوہ کو غم زیادہ ہوگیا تو اپنی چوڑیاں خود ہی پھوڑ لیتی ہے۔‘‘

نوجوانوں کے اتحاد پر: ’’ہمارا اتحاد ‘خربوزہ کی طرح ہوتا ہے یعنی باہر سے الگ الگ اور اندر سے ایک۔‘‘

سگریٹ کے ایک شوقین نے مولانا سے سوال کیا کہ مولانا! آپ کہتے ہیں کہ جنت میں سب کچھ ملے گا، جنتی جو چاہے گا سو پائے گا تو بتایئے کہ کیا جنت میں سگریٹ بھی ملے گا؟ مولانا نے فرمایا ’’ہاں، ہاں ضرور ملے گا مگر اُسے جلانے کیلئے دوزخ میں جانا پڑے گا۔

سماجی مسائل پر: ’’ایک مرغا جب جاتا ہے تو چار مرغیاں اس کے ساتھ چلتی ہیں… بیوی کو کھلانا مرد کا کام ہے۔‘‘

حال ہی میں میری نظر سے مولانا عاقلؒ کا ایک بیان گزرا جس میں مولانا نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر دیگر ابنائے وطن کی جانب جو زیادتی ہوتی ہے وہ ان کی فطرت ہمیں تکلیف دیتی ہے کیوںکہ برسوں مسلمانوں نے اس ملک پر حکومت کی لیکن اسلام کی حقانیت کو نہ ہی اپنے عمل کے ذریعہ ثابت کر سکے اور نہ ہی انہیں اسلام و شریعت کا پیغام صحیح طور پر سمجھانے کی کوشش کی ‘ بلکہ ہمارا کام آج بھی داعی کا ہے کہ ہم اسلام پر خود عمل کریں اور دوسروں کو دعوت دیں ۔

یہ اقوال مولانا عاقلؒ کی سیاسی بصیرت اور سماجی مسائل پر ان کے کھلے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل ؒ کی زندگی اور خدمات ان کے عزم، قربانی اور بے باکی کی مثال ہیں۔ ان کا سیاسی اور سماجی کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کی جدوجہد ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔

کل زمانہ روئے گا کھو کے تم کو اے عاقل
کیا تھے وہ یہ بولے گا آج ہم نہیں کہتے
٭٭٭