مذہب

مہر کی کم سے کم مقدار

مہر کی مقدار کے سلسلہ میں شریعت کا تصور یہ ہے کہ مہر اتنا زیادہ نہ ہوجائے کہ شوہر کے لئے ادا کرنا دشوار ہوجائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے ۔

سوال:- کم سے کم مہر کی مقدار کیا ہے ؟ شریعت نے مہر کی مقدار کیا طے کی ہے ، اگر کوئی اس سے کم مقدار مہر باندھتا ہے تو کیا ہوگا ؟ (محمد ریاض احمد، وجئے نگر کالونی)

متعلقہ خبریں
عورت کا حق میراث اور اسلام
بھوک سے زیادہ کھانا
گناہ سے بچنے کی تدبیریں
اسلام کی سربلندی کے لئے علماء کرام، مشائخ عِظام کی متحدہ جدوجہد ضروری: امیر جامعہ نظامیہ مفتی خلیل احمد صاحب
دھوکہ دہی کے ذریعہ 20 خواتین سے شادی کر نے والا گرفتار

جواب:- حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ مہر کم سے کم دس درہم ہو ناچاہئے : ’’ ولا مہر دون عشرۃ دراہم ‘‘ (دار قطني : ۳؍۱۷۳، نیز دیکھئے : مسند أبو یعلی ، حدیث نمبر : ۲۰۹۴) ،

یہی رائے فقہاء حنفیہ کی ہے کہ مہر اس سے کم نہیں ہوسکتا ، اگر اس سے کم مہر باندھا جائے تب بھی کم سے کم اتنی رقم دینی پڑے گی : ’’ ولو سمی أقل من عشرۃ فلہا العشرۃ ‘‘ (ہدایہ اولین: ۳۴۶)

دس درہم ۳۱؍ گرام چاندی سے کچھ اوپر ہوتا ہے ، گویا ۳۲؍ گرام چاندی ؛ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مہر کی کم سے کم مقدار ہے ، اگر لڑکی کے ولی نے مہر کی یہ مقدار متعین کردی ؛ لیکن لڑکی اس پر راضی نہیں ہوئی یا لڑکی نے خود اتنی کم مقدار پر نکاح کرلیا ، اور اس کے سرپرست اس پر راضی نہ ہوں تو لڑکی کے دادھیالی خاندان کا عمومی طور پر جو مہر ہے اس کے مطابق مہر ادا کرنا ضروری ہوگا ،

مہر کی مقدار کے سلسلہ میں شریعت کا تصور یہ ہے کہ مہر اتنا زیادہ نہ ہوجائے کہ شوہر کے لئے ادا کرنا دشوار ہوجائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے ۔