ہندوستان میں اینٹی بایوٹکس کا غلط استعمال سنگین بحران کی شکل اختیار کرنے لگا
ملک میں سب سے زیادہ غلط استعمال ہونے والی ادویات میں ازیترومائسن، اموکسی سلین اور اوفلوکساسین شامل ہیں۔ یہ ادویات اسپتالوں، کلینکوں، فارمیسیوں اور حتیٰ کہ گھروں میں بھی بغیر ضرورت کے استعمال ہو رہی ہیں۔
نئی دہلی: ہندوستان اس وقت اینٹی بایوٹک کے غلط اور بے تحاشہ استعمال کے باعث اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت اور متعدد بین الاقوامی تحقیقی مطالعات کے بعد لانسیٹ سے منسلک حالیہ تحقیق نے اس مسئلے کو مزید نمایاں کر دیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں عام اور سستی اینٹی بایوٹکس کا بے جا استعمال سپر بگز کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے۔
ملک میں سب سے زیادہ غلط استعمال ہونے والی ادویات میں ازیترومائسن، اموکسی سلین اور اوفلوکساسین شامل ہیں۔ یہ ادویات اسپتالوں، کلینکوں، فارمیسیوں اور حتیٰ کہ گھروں میں بھی بغیر ضرورت کے استعمال ہو رہی ہیں۔
ازیترومائسن کی کھپت 2019 میں 640 ملین DDDs تک پہنچ گئی اور کووِڈ–19 کے دوران اس کا بے تحاشہ استعمال مزید بڑھ گیا، جس سے سالمونیلا، اسٹریپٹوکوکس نیومونیا اور ای کولی جیسے جراثیم میں شدید مزاحمت پیدا ہوئی ہے۔
اسی طرح اموکسی سلین اور کو-اموکسی کلاو جیسی دوائیں عام نزلہ، زکام اور وائرل بیماریوں میں بھی بے دریغ استعمال کی جا رہی ہیں، حالانکہ وائرل انفیکشن میں اینٹی بایوٹک کا کوئی رول نہیں ہوتا۔
اس غلط استعمال نے ای کولی اور کلیبسیلا جیسے خطرناک بیکٹیریا میں ESBL قسم کی مزاحمت کو تیزی سے بڑھایا ہے، جو ملک کے لیے تشویش ناک صورتحال ہے۔
اوفلوکساسین اور دیگر فلوئرو کوئنولونز بھی بھارت میں بڑی مقدار میں نسخے کے بغیر دستیاب ہیں، اور ان کا بے محابا استعمال پیسیوڈوموناس، ای کولی اور دیگر خطرناک جراثیم میں ریزسٹنس بڑھا رہا ہے۔
یہ وہ ادویات ہیں جنہیں عام طور پر اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب پہلی لائن کے اینٹی بایوٹک بے اثر ہو جائیں، لیکن ان کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی طاقت مستقبل میں علاج کو مزید مشکل بنا سکتی ہے۔
رپورٹس میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سیفکسائم اور سیفٹریاکسون جیسی تھرڈ جنریشن سیفالوسپورنز کا استعمال بھی عوام میں عام ہے جبکہ بعض اسپتالوں میں کولسٹن اور لائنزولڈ جیسی آخری درجے کی ادویات کا بھی غلط استعمال دیکھا گیا ہے، جو مستقبل میں صحت عامہ کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں اینٹی بایوٹک کا غیر ضروری استعمال، خود علاج، بغیر نسخے ادویات کی دستیابی اور عوامی غلط فہمیاں سپر بگز کے پھیلاؤ کو تیز کر رہی ہیں۔
بار بار اینٹی بایوٹک کے استعمال سے جراثیم میں مزاحمت بڑھتی ہے اور وہ طاقتور شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج عام انفیکشن کا علاج بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں میں مزاحم بیکٹیریا کی موجودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر اب بھی احتیاط نہ کی گئی تو آنے والے برسوں میں اینٹی بایوٹک ریزسٹنس ہندوستان کے لیے ایک خاموش وبا کا روپ اختیار کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں عام بیماریوں کا علاج بھی ناممکن ہوتا چلا جائے گا۔
ملک کو فوری طور پر سخت حکمت عملی، طبی نگرانی، اور عوام میں آگاہی مہم کی ضرورت ہے تاکہ اینٹی بایوٹکس کا ذمہ دارانہ استعمال یقینی بنایا جا سکے۔