دہلی

مسلمان شریعت میں کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا:مولاناارشدمدنی

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ آئین ہند کی دفعات 15,14اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ترمیم سے عدالتی آزادی ختم ہوجائے گی اور یہ ترمیم امتیاز کرنے والی بھی ہے جوآئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔

نئی دہلی: وقف بورڈ کے آج پارلیمنٹ میں پیش نئے ترمیم شدہ بل پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ان ترامیم کے ذریعہ حکومت وقف کی جائدادوں کی حیثیت اورنوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے  یہ بات انہوں نے آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کہی۔

متعلقہ خبریں
وقف ترمیمی بل چور دروازے سے اوقافی جائیدادوں کو غصب کرنے کی سازش: مشتاق ملک
وقف بورڈ کا ریکارڈ روم مہر بند کرنے کا معاملہ، ہائیکورٹ جج سے تحقیقات کا مطالبہ
شاہی عیدگاہ ٹرسٹ اور وقف بورڈ کی درخواستوں کی یکسوئی
مسلم میت ہیلپ لائن سے 5 ہزار روپے جاری
درگاہ حضرت جہانگیر پیراں ؒ کے ترقیاتی کاموں کا جلد آغاز ہوگا

انہوں نے کہا کہ ترمیم اس لئے کرنا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے۔ مجموعی طورپر نئی ترمیمات کی منظوری ہونے پر ایک کلکٹرراج وجود میں آئے گا۔

اوریہ فیصلہ کرنا کہ کون سی جائدادوقف ہے اورکونسی وقف نہیں ہے وقف ٹربیونل کافیصلہ آخری نہیں ہوگابلکہ ملکیت کے سلسلہ میں کلکٹرکا فیصلہ آخری ہوگا، پہلے یہ اختیارات وقف ٹربیونل کو تھا،وقف ایکٹ میں کی جانے والی مجوزہ ترامیم آئین ہند سے حاصل مذہبی آزادی کے بھی خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین ہند کی دفعات 15,14اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ترمیم سے عدالتی آزادی ختم ہوجائے گی اور یہ ترمیم امتیاز کرنے والی بھی ہے جوآئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔

وقف مسلمانوں کے اہم مذہبی فریضے میں شامل ہے۔وقف ٹریبونل ختم کرکے کلکٹر کے پاس اختیار ات دیئے جانے سے ہندوستان کی عدالتی آزادی ختم ہوجائے گی اور کلکٹر راج کی شروعات ہوگی۔

 وقف سے حاصل ہونے والی رقم کو حکومت مسلمانو ں میں تقسیم کریگی اوروقف بورڈکے ممبران میں غیر مسلموں ممبربنانے جیسی بات کہی گئی ہے جبکہ کسی دوسرے مذاہب کے کسی بھی بورڈمیں کوئی دوسرے دھرم کا ماننے والا ممبرنہیں ہوسکتاہے،یہ حکومت کافیصلہ مذہبی معاملات میں مداخلت ہے جو مسلمانوں کو نامنظور ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ہندومسلم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کے آئین،دستوراورسیکولرازم کا مسئلہ ہے، یہ بل ہماری مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔

 انہوں نے کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے طرح طرح کے حیلوں اوربہانوں سے مسلمانوں کو انتشار اورخوف میں مبتلارکھنے کے لئے ایسے ایسے نئے قانون لارہی ہے جس سے صریحاہمارے مذہبی امورمیں مداخلت ہوتی ہے، حالانکہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلمان ہر خسارہ برداشت کرسکتاہے، لیکن اپنی شریعت میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا۔

مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ یہ ایک طرح سے مسلمانوں کو دیئے گئے آئینی اختیارات میں دانستہ مداخلت ہے، آئین نے ہر شہری کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی امورپر عمل کرنے کا مکمل اختیاربھی دیا ہے اورموجودہ حکومت آئین کے ذریعہ مسلمانوں کو دی گئی اس مذہبی آزادی کو چھین لینا چاہتی ہے۔

 انہوں نے آگے کہاکہ مسلمانوں نے جو وقف کیا ہے اورجس مقصدکے لئے وقف کیا ہے، کوئی بھی شخص واقف کے منشاکے خلاف اس کااستعمال نہیں کرسکتاہے، کیونکہ یہ پراپرٹی وقف علی اللہ ہوتی ہیں، گورنمنٹ کی نیت خراب ہے ہمارے مذہبی مسئلہ میں دخل دینا چاہتی ہے اورمسلمانوں کی اربوں کھربوں کی جائدادوں کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں خواہ وہ یوسی سی کامسئلہ ہو، یا طلاق کا مسئلہ ہویا نان نفقہ کا مسئلہ ہو، اس نے اس میں دخل دیا ہے۔

ہمیں ایسی کوئی ترمیم منظورنہیں جو واقف کے منشاء کے خلاف ہو، اب اس وقت گورنمنٹ اوقاف کے دستورمیں ترمیمی بل لاکر مسلمانوں کے مذہبی امور میں دخل دینے کی کوشش کررہی ہے لیکن جمعیۃعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف ایکٹ 2013میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائدادوں کی حیثیت یانوعیت بدل جائے یا کمزورہوجائے یہ ہرگز ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔

جمعیۃعلماء ہند نے ہر دورمیں وقف املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مؤثراقدامات کئے ہیں اورآج بھی ہم اس عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہندوستان کے بیس کروڑمسلمان بہارسے لیکر آندھراتک حکومت کے ہر اس منصوبہ کے خلاف ہوں گے جوجائدادموقوفہ کی حفاظت کی ضمانت نہ دیتا ہو۔

واضح رہے کہ جمعیۃ علما ہند سمیت متعدد تنظیموں نے زبردست مخالفت کی تھی اور مولانا ارشد مدنی نے تین صفحے پر مشتمل وقف سے متعلق نکات کو تمام پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ کو بھیجا تاکہ وہ بل کی مخالفت کرسکیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔

a3w
a3w