اتر کاشی کے مسلمان گھربار اور کاروبار چھوڑنے پر مجبور
زاہد فی الحال دہرہ دون میں مقیم ہیں اور کبھی واپس ہونے کا ارادہ نہیں رکھے۔ انہوں نے ٹی سی این کو بتایا کہ اگر بی جے پی لیڈر محفوظ نہیں ہیں تو پھر کون محفوظ رہ سکتا ہے۔

اترکاشی: اترکھنڈ کے پرولا میں ایک دکاندار محمد زاہد کا کہنا ہے کہ ”ہم کو نہیں لگتا کہ اب ہم کبھی وہاں واپس جاپائیں گے“۔ زاہد‘ اترکاشی میں بی جے پی اقلیتی سل کا ضلع صدر ہے۔ 26 مئی کو پرولا کے تقریباً 200 مسلمانوں کی زندگیاں راتوں رات تبدیل ہوگئیں۔
وہ لوگ 2 افراد کی جانب سے ایک نابالغ ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا کے بعد مخالف مسلم نفرت کا نشانہ بن گئے۔ یہ واقعہ 26 مئی کو پیش آیا تھا جس میں ایک ہندو اور ایک مسلمان ملوث تھا۔ اس واقعہ کے بعد لوجہاد کے الزامات عائد کئے جانے لگے۔ زاہد‘ اس کی بیوی اور دونوں بچے 7 جون کو ٹاؤن سے فرار ہوگئے۔ وہ گزشتہ 35 سال سے یہا ں مقیم تھے۔
زاہد فی الحال دہرہ دون میں مقیم ہیں اور کبھی واپس ہونے کا ارادہ نہیں رکھے۔ انہوں نے ٹی سی این کو بتایا کہ اگر بی جے پی لیڈر محفوظ نہیں ہیں تو پھر کون محفوظ رہ سکتا ہے۔
زاہد گزشتہ 7-8 برس سے بی جے پی سے وابستہ تھے اور جاریہ سال ڈسٹرکٹ مائناریٹی سل کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے 3سال تک سن یوجک (کنوینر) اور مہامنتری (جنرل سکریٹری)کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔
زاہد کا خیال تھا کہ پارٹی ان کی مدد کرے گی اور ان کا تحفظ کرے گی لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو وہ مایوس ہوگئے۔ 26 مئی کے واقعہ کے بعد دائیں بازو کے مختلف ہندو گروپس‘ مقامی بیوپار منڈل (ٹریڈرس گلڈ) اور بعض شہریوں نے 27مئی کو ایک احتجاجی ریالی منظم کی جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔
احتجاجی توڑپھوڑ پر اتر آئے تھے۔ مسلمانوں کی کئی دکانات کی ہورڈنگس اور فلیکس بورڈس پھاڑدیئے گئے۔ 2 دن بعد 29 مئی کو پرولا میں ایک اور احتجاجی مارچ منظم کیا گیا اور اس میں بھی تشدد برپا ہوا۔ 3 جون کو یمنا گھاٹی ہندو جاگرتی سنگھٹن نے ایک ریالی نکالی جس میں زائداز 900 افراد نے شرکت کی۔
یہ اجتماعات خاص طورپر مسلمانوں کے خلاف تھے جس کے نتیجہ میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ مسلمانوں کے خلاف ریالیاں صرف پرولا میں نہیں نکالی گئیں بلکہ دیگر علاقوں بشمول اترکاشی‘ بارکوٹ اور چنیالیسور کے علاوہ نوواگاؤں‘ دمتا‘ برنی گاڈ‘ نیٹوار اور بھٹواری جیسے گاؤں میں بھی نکالی گئیں۔
مسلم تاجرین کو دکانات کا تخلیہ کردینے کے لئے کہا گیا۔ ایک اور تاجر محمد سلیم نے ٹی سی این کو بتایا کہ کئی برسوں تک گارمنٹس کی دکان چلانے کے بعد دکان مالک نے مجھ سے کہا کہ میں اس کی ملگی خالی کردوں۔ مالک نے سلیم سے کہا کہ بائیں بازو کے گروپس دکان خالی کرانے کے لئے اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔