دہلی

مسلمانوں کو صبر و تحمل اور تدبر کے ذریعے نفرت سے مقابلہ کرنے کی ضرورت : احمد بخاری

دہلی کی شاہی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے آج یہاں نماز جمعہ قبل عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت انتہائی صبرآزما اور آزمائش سے بھرے دور سے گزررہے ہیں ملک ایسے لمحات سے گزررہا ہے

نئی دہلی: دہلی کی شاہی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے آج یہاں نماز جمعہ قبل عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت انتہائی صبرآزما اور آزمائش سے بھرے دور سے گزررہے ہیں ملک ایسے لمحات سے گزررہا ہے، جس میں ہر طبقے کے لوگ ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں ہزاروں سال سے گنگا جمنی تہذیب کے اس آئینہ دار ہندوستان کادامن اس قدر وسیع رہا ہے کہ ہر مذہب کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔

ایک ایسا ملک جس کی شناخب تمام مذاہب ، تہذیبوں، زبانوں، رنگ و نسل کا مساوی احترام ہے، آج اس پر آنچ آئی ہوئی ہے۔ یہ ہندو اور مسلمان کا سوال نہیں، یہ وطن عزیز کی عزت اور بقا اور سلامتی کا سوال ہے۔

مولانا بخاری نے کہا کہ ہمارا ملک اور اس کی پہچان کسی ایک اکائی ، مذہب یا تہذیب سے نہیں بلکہ یہ تمام عقائد، مذاہب، ثقافتوں، تہذیب و تمدن کا مشترکہ عالمی مرکز اور گہوارہ ہے۔ اس چمن میں سب ایک دوسرے سے کئی مسائل پر بنیادی اختلافات کے باوجود سب ایک اکائی کی طرح صدیوں سے چلے آرہے ہیں ۔ اب ایسا کیا ہوگیا کہ اقلیت کی ہر چیز جرم بن گئی اور اکثریت کا غلط بھی صحیح ہوگیا ہے ؟

مسلمانان ہند اس ملک کی تنہا سب سے بڑی آبادی ہے اور تمام دنیا میں کسی ایک ملک میں بھی سب سے بڑی آبادی ہے۔

مسٹر احمدبخاری نے کہا کہ تقسیم ہند کے باوجود نفرت اور منافرت کا بازار آج گرم رہا، لیکن اس سے پہلے ایسا دیکھنے کو کبھی نہیں ملا۔ بھیانک فسادات ہوئے، قتل و غارت گری ہوئی، نہتے نمازیوں پر گولیاں چلیں، لاتعدا دد مسلمانوں کو زندہ زمین میں دفناکر ان پر ٹریکٹر چلاکر گوبھی کی فصل لگادی گئی ، ہزاروں سکھوں کا قتل عام ہوا ، لاکھوں معصوم جانیں تقسیم وطن کی نذر ہوئیں۔

مگر نفرت کا زہر نہیں پھیلا۔ آسام میں نیلی کے مقام پر 16گاوں سے مسلمان کھدیڑ دیئے گئے، تین ہزار سے زائد مسلمانوں کا یک طرفہ قتل ہوا مگر آج آسام میں جس طرح نفرت پھیلائی گئی ہے اور پھیلائی جارہی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

شاہی امام نے کہا کہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے لبراہن کمیشن،گوپال کمیشن، شری کرشنا کمیشن اس کے علاوہ بھی مختلف کمیٹیاں اور کمیشن بنائے گئے۔ مسلمانوں کو ڈرا ڈرا کر ووٹ حاصل کئے جاتے رہے ، اقتدار حاصل کیا لیکن ناانصافی، محرومی مسلمانوں کے مقدر بنادےے گئے۔ آزادی کے بعد جو تمام تحفظات مسلمانوں کو ملنا چاہئے تھے، وہ نہیں ملے۔ بلکہ ایک سازش کے تحت ان تحفظات سے مسلمانوں کو محروم رکھا گیا۔

امام بخاری نے کہا کہ ہمار ایسا کیا ا گناہ ہے کہ مسجدوں کی میناروں پر چڑھ کر اشتعال انگیز نعرے، اماموں کی داڑھیوں کو نوچاجانا، ٹرین میں سفر کے دوران مسلمانوں کا قتل کیا جانا، قرآن کریم کی بے حرمتی، توہین رسالت، وقف ترمیمی بل، دھرم سنسد کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی، قبرستانوں، مزارت اور خانقاہوں کی بے حرمتی، ہجومی تشدد، ذرا سے احتجاج پر عدالتی حکم کے بغیر گھروں کو بلڈوز کیا جانا، برسراقتدار جماعت کا مسلم نمائندگی سے مکمل خالی رہنا اور بے جا زبان درازی کرکے مسلمانان ہند میں خوف و ہراس پیدا کرنا، اتنا ہی نہیں بلکہ اگر ایک ہندو بیٹی کے ریپ کا واقعہ ہو، تو پورا ملک آواز اٹھائے اور وہی ظلم جب ایک مسلم بیٹی پر ہو تو ہر سو خاموشی چھاجائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آج اس ہندوستان کو تلاش کررہے ہیں جس کا خواب ان کے بزرگوں نے دیکھا تھا۔

شاہی امام نے کہا کہ انہوں نے ان تمام حالات کا ذکر پورے ملک اور مہذب معاشرے کو دعوت فکر دینے کے لئے کیا ہے۔ میری تشویش کا پس منظر ہندومسلم تقسیم یا تعصب نہیں ہے، مجھے اپنا ملک اندھیروں کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں مجھے اپنا یہ قومی اور مذہبی فریضہ لگا کہ میں اپنی اس روایتی ذمہ داری کو نبھائیں جو اس کی روشن تاریخ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کسی کو بے جا نفرت میں مبتلا کرنا ان کا مقصود نہیں بلکہ سب میں ایک احساس ذمہ داری اور احساس احتساب کرنا مقصود ہے۔ جذبات کو بھڑکانا قیادت کا کام نہیں۔ اس کا کام مسائل سے آگاہ کرنا، بروقت متنبہ کرنا اور مسائل کے حل کی زمین پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔آخر میں میں اپنی قوم سے مخاطب ہوکر کہنا چاہتاہوں کہ آزمائش اور امتحان انبیاءکی سنت ہے جو اس دور میں مستعد رہا تو نصرت اور فتح انشاءاللہ اس کا مقدر ہے۔

a3w
a3w