اب اکھاڑہ بازار مسجد ڈھانے کا مطالبہ، ہندو تنظیموں کی یاترا۔ احتجاجیوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپ (ویڈیوز)
ہماچل پردیش میں غیرقانونی تعمیر کردہ مساجد ڈھانے کے مطالبہ پر احتجاج زور پکڑتا جارہا ہے‘ ایسے میں ایک مسلم تنظیم نے کہا ہے کہ ریاست میں غیرقانونی مساجد نہیں ہیں لیکن سرکاری ریکارڈس میں نقشوں کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔
شملہ(پی ٹی آئی) ہماچل پردیش میں غیرقانونی تعمیر کردہ مساجد ڈھانے کے مطالبہ پر احتجاج زور پکڑتا جارہا ہے‘ ایسے میں ایک مسلم تنظیم نے کہا ہے کہ ریاست میں غیرقانونی مساجد نہیں ہیں لیکن سرکاری ریکارڈس میں نقشوں کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔
ہندو تنظیموں نے پیر کے دن کلو میں یاترا نکالی۔ انہوں نے ایک مسجد ڈھانے کا مطالبہ کیا۔ پولیس کے ساتھ ان کی دھکم پیل ہوئی۔ ہندو دھرم جاگرن یاترا کے بیانر تلے احتجاجیوں نے کڑے پہرہ میں ہنومان مندر تا اکھاڑہ مسجد مارچ کیا۔ لوگوں کی بڑی تعداد جن میں عورتیں بھی شامل تھیں‘ بھگوا جھنڈے اور پلے کارڈس تھامی ہوئی تھی۔
وہ کلو میں مسجد ڈھانے کا مطالبہ کررہی تھی۔ موسیقار مقامی آلات ِ موسیقی بجارہے تھے اور روایتی لباس میں ملبوس عورتیں یاترا کی قیادت کررہی تھیں۔ 30 اگست کو شملہ کے مضافات ملیانہ میں ایک مسلمان حجام اور ہندو تاجر کے جھگڑے کے بعد ریاست میں غیرقانونی تعمیر کردہ مساجد ڈھانے کا مطالبہ شروع ہوا تھا۔ ہندو گروپس کا کہنا ہے کہ یہ مساجد غیرمجاز ہیں۔
مقامی لوگ مطالبہ کررہے ہیں کہ ریاست میں باہر سے آنے والوں کی شناخت کی جائے۔ اسی دوران مسلم ویلفیر کمیٹی‘ منڈی کے صدر نعیم احمد نے پی ٹی آئی سے پیر کے دن کہا کہ ہماچل پردیش میں کوئی بھی مسجد غیرقانونی نہیں ہے لیکن نقشہ پاس کرانے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔ اگر کوئی چیز غیرقانونی پائی جائے تو وہ ڈھانچہ ہم خود ہٹادیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اتوار کے دن مسلم برادری کے نمائندوں کی میٹنگ میں طئے پایا کہ اقلیتی فرقہ کی ریاستی سطح کی کمیٹی بنائی جائے جو چیف منسٹر سے ملاقات کرکے انہیں موجودہ صورتِ حال سے واقف کرائے۔ نعیم احمد نے کہا کہ مسلم رہنماؤں کی رائے میں بعض لوگ نفرت پھیلارہے ہیں اور اس کی روک تھام ہونی چاہئے۔
ریاست میں آنے والے ہر شخص کی بلالحاظ مذہب و ملت جانچ ہونی چاہئے۔ قبل ازیں اتوار کے دن کلو ضلع حکام نے کہا کہ اکھاڑہ بازار کی مسجد غیرقانونی نہیں ہے۔سرکاری ریکارڈ میں مسجد کے رقبہ کے تعلق سے کچھ اختلاف ہے۔ ریگولرائزیشن کا کیس ٹاؤن اینڈ کنٹری پلاننگ میں زیرالتوا ہے۔
مسجد کا جملہ رقبہ 980 مربع میٹر ہے اور تقریباً 150 مربع میٹر کا انحراف پایا گیا۔ جامع مسجد کلو آزادی سے پہلے کی ہے اور ریاستی حکومت کے 15 اگست 1970 کے گزٹ اعلامیہ میں اس کا اندراج ہے۔قبل ازیں 11 ستمبر کو شملہ کے سنجولی علاقہ کی ایک مسجد کا ایک حصہ ڈھانے کے مطالبہ پر احتجاج میں 10 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس کے 2 دن بعد منڈی میں ایسا ہی احتجاج ہوا تھا جہاں مظاہرین کو منتشر کرنے آبی توپوں کا استعمال کیا گیا تھا۔