سیاستمضامین

NRC کا مطلب ایک طبقہ کو شہریت سے محروم کرکے ان کی جائیدادوں کو بحقِ سرکار ضبط کرلینا تو نہیں؟ایک طبقہ کو حقِ رائے دہی اور حقِ جائیداد سے محروم کردینے کے علاوہ اور کیا مقصد ہوسکتا ہے

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ 70-80 سالہ ہندوستانی کہاں سے اپنا صداقت نامۂ پیدائش لائے گا۔
٭ ساری دنیا میں اپنے ہی شہریوں کی ہراسانی کی انوکھی مثال ہے۔
٭ سارے ملک کے ایک طبقہ میں پریشانی کی لہر ہے۔
٭ استفسارات کا سلسلہ جاری ہے۔
سارے ملک میں پریشانی کی ایک برقیائی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہر کوئی خصوصاً اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایک تجسس میں مبتلا ہیں کہ کہاں سے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ لائیں۔ جس ملک میں پیدا ہوئے جہاں پلے بڑھے‘ جہاں تعلیم حاصل کی اور جہاں روزگار پایا‘ وہی ملک ایک اجنبی ملک بن گیا ہے۔ نہ اسکول سرٹیفکیٹ کام آئے گا اور نہ ووٹرس لسٹ ۔ نہ ہی آدھار کارڈ ۔ جو ملک آباء و اجداد کا مدفن ہے ‘ اس میں ہم اجنبی ہیں یا غیر ملکی؟ عجیب نرالی منطق ہے۔
یہ تاجروں کی حکومت بے مقصد نہ تو کوئی کام کرتی ہے اور نہ ہی اس کے ارادے نیک ہیں۔ اس قانون کے پس پردہ کچھ ایسے مقاصد ہوسکتے ہیں جن سے حکومت فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہر کوئی واقف ہے کہ صرف وہی شخص جائیداد کا مالک ہوسکتا ہے جو کہ ملک کا شہری ہے اور وہ شخص جو کہ شہری نہیں یا جس کی شہریت قانونی طریقہ کو بروئے کار لاکر چھین لی جائے ‘ اسے جائیداد رکھنے کا کوئی حق نہیں لہٰذا اس کی جائیداد/ جائیدادوں کو بحقِ سرکار ضبط کیا جاسکتا ہے۔ یہی مقصد ہے اور اس سے ہٹ رک کوئی اور مقصد ہوہی نہیں سکتا۔
اس ضمن میں قارئین کرام کے استفسارات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا اور ہر کوئی اپنی شہریت اور حقِ جائیداد سے متعلق فکر مند ہے۔
اس مسئلہ کا سیدھا حل یہ ہے کہ اگر آپ1987ء سے پہلے پیدا ہوئے ہوں اور آپ کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو وہ پاسپورٹ آپ کے کام آئے گا جو 1987ء سے پہلے جاری ہوا ہو۔ اس پاسپورٹ میں جو عمر درج ہوگی وہی آپ کی تاریخ پیدائش سمجھی جائے گی ۔ عموماً1987کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے ہوں ان کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ ہوگا اور وہی تاریخ اسکول رجسٹر میں درج ہوگی۔ علاوہ ازیں سیول کورٹ میں تاریخ پیدائش کو(Correct) کرنے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی مخالفت نہ ہو(اورعموماً) مخالفت کسی بھی گوشے سے نہیں ہوتی‘ تو ایسی صورت میں سیول عدالت کی جانب سے تاریخ پیدائش کا (Declaration) حاصل کیا جاسکتا ہے اور یقینی طور پر عدالت سے آپ کے حق میں فیصلہ آسکتا ہے اور وہی فیصلہ آپ کو شہریت دلاسکتا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کیا ہزاروں لاکھوں لوگ انفرادی طور پر ہزاروں مقدمات دائر کریں گے‘ ان مقدمات کے اخراجات کیا ہوں گے‘ کورٹ فیس‘ اخبار میں نوٹیفکیشن کی اشاعت‘ ایڈوکیٹ کی فیس ‘ عدالت کے روزمرہ کے کام پر کتنا اثر پڑے گا۔ عدالت میں لوگوں کا اژدھام ہوجائے گا۔
عملی طور پر یہ بات ممکن نظر نہیں آتی۔ بے شک یہ کام ہوسکتا ہے اور تاریخ پیدائش کا اعلامیہ جاری ہوگا جس کی بناء پر یقینی طور پرشہریت مل جائے گی۔ ہر کیس میں کورٹ فیس مقدمہ دائر کرنے کے اخراجات۔ ایڈوکیٹ فیس کے علاوہ اخبار میں اعلان کی اشاعت کیلئے کم از کم آٹھ دس ہزار روپیہ کے اخراجات ہوں گے۔ کیا ہرشہری ان اخراجات کا متحمل ہوسکے گا؟
اس ضمن میں جو استفسارات آرہے ہیں ان میں تعلیم یافتہ اور صاحبِ جائیداد حضرات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے سوالات کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔
-1 کیا ہمارا حق رائے دہی چھین لیا جائے گا۔
-2 وہ سہولتیں جو حکومت نے عوام کو دی ہیں‘ کیا چھین لی جائیں گی۔
-3 کیا ہماری جائیدادوں کو ضبط کرلیا جائے گا کیوں کہ کوئی بھی غیر شہری ہندوستان میں جائیداد/زمینات نہیں خریدسکتا۔
-4 کیا ریاستِ آسام کی طرح ہمارے طبقہ کو ان کی شہریت چھین کر (Detention Camps) میں رکھا جائے گا۔
-5 ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
جواب ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ نہ تو آپ کی شہریت چھینی جائے گی اور نہ ہی آپ کو ایسے (Camps) میں رکھا جائے گا۔ پچیس کروڑ ہندوستانیوں کو اگر ایسے کیمپس میں رکھا جائے تو ان کیمپس کی تعمیر میں اتنا پیسہ خرچ ہوگا جو ہندوستان کے کئی سال کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوگا اور اتنی ہی تعداد میں تین وقت کے کھانے میں جو اخراجات ہوں گے ان کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔ ہندوستان لاکھوں کروڑوں روپیوں کا (IMF) کا مقروض ہے اور صرف سود میں ملک کی ساری آمدنی کا 35 فیصد ادا کرنا پڑرہا ہے۔ اخراجات کی بھرپائی کے لئے قرض کے بعد قرض حاصل کیا جارہا ہے اور سود میں ادا کی جانے والی رقم بڑھ رہی ہے۔ معاشیات کے ماہرین کی بات اگر تسلیم کریں تو کچھ سالوں بعد ملک کی ساری آمدنی کے برابر سود کی رقم ہوگی۔ ایسی معاشی خستہ حالی کی صورت میں یہ باتیں خواب کی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو عملی طور پر ناممکنات میں سے ہیں‘ لہٰذا کسی بھی فکر و تردد کی ضرورت نہیں۔
قارئین کرام اس ضمن میں جب چاہیں ۔ دن یا رات استفسارات کرسکتے ہیں۔
بعض قارئین نے استفسار کیا ہے کہ جائیدادوں کے تحفظ کے لئے کیا بذریعۂ زبانی ہبہ میمورنڈم اپنی جائیدادیں اپنے ورثاء میں تقسیم کی جاسکتی ہیں؟ جواب ہے کہ ایسی صورت پیش آئے یا نہ آئے۔ آپ اپنی جائیدادیں یقینی طور پر اپنے ورثاء میں بغیر رجسٹریشن کے اخراجات برداشت کئے ہوئے بذریعہ زبانی ہبہ میمورنڈم تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس سے دوہرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے بعد کوئی بھی وارث بشمول بیٹی محروم نہیں ہوں گے اور سب کے ساتھ انصاف ہوگا اور وہ جو خوف طاری ہے ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا اس ضمن میں عاجلانہ عمل کی ضرورت ہے۔ اس عمل میں کوئی نقصان نہیں ہوگا اور مقصد بھی پورا ہوجائے گا۔
صدفیصد کامیابی کے امکان کے باوجود ایڈوکیٹ صاحب فریق مخالف سے (50:50) کی اساس پر مصالحب کی رائے دے رہے ہیں
سوال:- ہمارے والد صاحب مرحوم نے2001ء میں معین آباد سے قریب 7 ایکر اراضی13 لاکھ روپیہ فی ایکر کے حساب سے خریدی تھی ۔ اراضی کی حصار بندی کی گئی اور پھر والد صاحب امریکہ چلے گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔ چار سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ہم کچھ سال پہلے حیدرآباد آئے اور اپنی اراضی پر گئے تو دیکھا کہ اراضی پر ایک بورڈ لگا ہوا ہے اور ایک کمرہ بھی تعمیر ہوا ہے اور الکٹرک لائن بھی ہے ۔ ہم نے دریافت کیا ہمیں ڈرایا اور دھمکایا گیا ۔ ہم پولیس سے رجوع ہوئے۔ ہمیں کہا گیا کہ یہ سیول نوعیت کا معاملہ ہے ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ سیول کورٹ سے رجوع ہوسکتے ہیں۔
ہم ایک سینئر ایڈوکیٹ سے رجوع ہوئے اور انہوں نے کارروائی کا آغاز ہوا۔ اس قابض یا غاصب نے ایک جھوٹے معاہدۂ بیع معہ قبضہ اور الکٹرک بل کی بنیاد پر انجانے لوگوں کے خلاف انجنکشن آرڈر حاصل کیا تھا ۔ تمام کاغذات کی نقل آپ کو روانہ کی جارہی ہے۔ ایڈوکیٹ صاحب نے معاہدۂ بیع کی تنسیخ کا دعویٰ کیا اور مقدمہ چل رہا ہے۔ اب ایڈوکیٹ صاحب کہہ رہے ہیں کہ مخالف پارٹی بہت طاقتور ہے اور ان کے پاس دستاویزات اور انجنکشن آرڈر بھی ہے۔ آپ مخالف پارٹی سے 50:50 اساس پر صلح کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہوگا۔
سارے کاغذات ترسیل کئے جارہے ہیں۔ والد صاحب نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا اور ان کی دستخط کی جعلسازی کی گئی ہے۔ آپ سے اس ضمن میں رائے طلب کی جارہی ہے کہ کیا مقدمہ کی فائل ایڈوکیٹ صاحب سے واپس لی جاسکتی ہے اور کامیابی کے کتنے امکانات ہیں۔
جواب کی اشاعت جلد از جلد کیجئے۔ مہربانی ہوگی۔ فقط
X-Y-Z بنجارہ ہلز۔ حیدرآباد
جواب:- تمام کاغذات کا مطالعہ کیا گیا ۔ وہ معاہدۂ بیع کا اسٹامپ پرانی حویلی کے ایک اسٹامپ فروش سے خریدا گیا۔ اس اسٹامپ کے نمبر کو مٹادیاگیا ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک جلعسازی ہے۔ آپ مقدمہ میں کامیاب ہوں گے کیوں کہ آپ کے والد صاحب کے دستخط جو ان کے پاسپورٹ پر ہیں اس دستخط سے بالکل مختلف ہیں جو اس جعلی بیع نامہ پر ہیں۔
اگر اس جعلی بیع نامہ کو(FSL)بھیجا جائے تو بات بالکل صاف ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں پولیس کے ذریعہ اسٹامپ فروش کے رجسٹر کی بھی تنقیح کی جاسکتی ہے کہ یہ اسٹامپ پیپر کا خریدار کون تھا۔ یقینی طور پر آپ اس مقدمہ میں کامیاب ہوں گے کیوں کہ یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ جعلسازی ہوئی ہے۔
آپ کے ایڈوکیٹ صاحب کی نیت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔ آپ فوری طور پر اپنی فائل اور NOC حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ لوگوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہوا۔ اگر آپ لوگوں نے اپنی قیمتی اراضی کی مناسب حفاظت کی ہوتی تو آپ کو سالانہ چھ ہزار روپیہ فی ایکر حکومت سے امداد بھی ملتی۔ لیکن شائد آپ لوگوں کا ارادہ اس اراضی کو بڑھے چڑھے داموں پر فروخت کرنے کا تھا۔
خیر جو بھی ہوا اب تک ٹھیک ہے ۔ مصالحت پر راضی ہونے کا کوئی جواز نہیں جبکہ آپ مقدمہ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ کے تمام کاغذات کو تلف کردیا گیا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰