حیدرآباد

والدین کی مصروفیات بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں: مولانا صابر پاشاہ

یومِ اطفال کے موقع پر منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ماہرینِ تعلیم و تربیت نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ جدید مصروف زندگی کے باعث والدین بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی ضروریات نظرانداز کر رہے ہیں، جس کے بچوں کی شخصیت اور ذہنی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

حیدرآباد: یومِ اطفال کے موقع پر منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ماہرینِ تعلیم و تربیت نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ جدید مصروف زندگی کے باعث والدین بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی ضروریات نظرانداز کر رہے ہیں، جس کے بچوں کی شخصیت اور ذہنی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں
مثالی پڑوس، مثالی معاشرہ جماعت اسلامی ہند، راجندر نگر کا حقوق ہمسایہ ایکسپو
عالمی یومِ معذورین کے موقع پر معذور بچوں کے لیے تلنگانہ حکومت کی مفت سہولتوں کا اعتراف مولانا مفتی صابر پاشاہ
تحفظِ اوقاف ہر مسلمان کا مذہبی و سماجی فریضہ: ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
محکمہ تعلیم کے سبکدوش اساتذہ کو شاندار اعزاز، ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
دعا اللہ کی قربت کا دروازہ، مومن کا ہتھیار ہے: مولانا صابر پاشاہ قادری

پنجہ شاہ، حیدرآباد میں واقع انڈوامرکن ہائی اسکول میں یومِ اطفال کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس کی نگرانی ڈاکٹر عبد الحمید، کرسپانڈنٹ/سکریٹری انڈوامرکن ہائی اسکول نے کی۔ تقریب میں اساتذہ، والدین، طلبہ اور سماجی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

تقریب کے مہمانِ خصوصی، لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے چیئرمین مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اپنے تفصیلی خطاب میں بچوں کی نفسیاتی تربیت، والدین کی ذمہ داریوں اور معاشرتی حالات کے تناظر میں اہم نکات پیش کیے۔

والدین کی مصروفیات اور بچوں کے لیے وقت کی کمی — ایک بڑھتا ہوا مسئلہ

مولانا قادری نے کہا کہ آج کا والدین معاشی دوڑ میں اس قدر مگن ہے کہ اسے اپنے بچوں کو وقت دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا:
“ماضی میں والدین بچوں کے ساتھ وقت گزارتے، انہیں کہانیاں سناتے اور ان کی فکری تربیت گھر ہی میں ہوتی تھی، مگر آج والدین اور بچوں میں یہ تعلق کمزور پڑتا جا رہا ہے۔”

انہوں نے زور دیا کہ والدین کی شفقت، گفتگو اور قربت بچوں کی خود اعتمادی اور ذہنی استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

بچوں کی نفسیاتی ضروریات — صرف خوراک و تعلیم سے آگے

مولانا قادری کا کہنا تھا کہ بچوں کی ضروریات صرف کھانے، لباس اور تعلیم تک محدود نہیں بلکہ ان کی نفسیاتی ضرورتیں بھی بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔

انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ:

  • بچوں کے ساتھ روزانہ معیاری وقت گزاریں
  • ان کی باتیں سنیں اور حوصلہ افزائی کریں
  • ان کی پریشانیوں کو سمجھیں
  • ان پر شفقت اور اعتماد کا اظہار کریں

انہوں نے کہا کہ یہ معمولی چیزیں بچوں کی شخصیت سازی میں بڑے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

معاشرے میں بچوں کی بدحالی — ایک تلخ حقیقت

مولانا صابر پاشاہ نے معاشرتی حقائق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بچے آج ہمارے معاشرے کا سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانے والا طبقہ بنتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ:
“بچے معیاری تعلیم، صحت اور کھیل کود جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جبری مشقت، اغوا اور جنسی تشدد جیسے سنگین جرائم بچوں کے خلاف بڑھے ہیں، جو ہمارے معاشرے کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے والدین، اساتذہ اور سماجی اداروں کی اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔

بھارتی دستور میں بچوں کے حقوق — اہم دفعات پر روشنی

مولانا قادری نے بھارت کے دستور میں درج بچوں کے تحفظ سے متعلق دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:

  • دفعہ 15: بچوں اور خواتین کو خصوصی مراعات کی اجازت
  • دفعہ 24: 14 سال سے کم عمر بچوں سے خطرناک کام لینے پر پابندی
  • دفعہ 39(C): بچوں کے استحصال کی روک تھام
  • دفعہ 45: بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان دفعات پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کیا جائے تاکہ بچوں کے حقوق کو مؤثر طور پر یقینی بنایا جا سکے۔

اسلامی تعلیمات میں بچوں کے حقوق — خاندان کے استحکام کی اہمیت

مولانا صابر پاشاہ قادری نے اسلامی نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے واضح اصول مقرر کیے ہیں۔

انہوں نے مقاصدِ شریعت کے حوالے سے بیان کیا کہ نسب کا تحفظ بچوں کی عزت، تربیت اور معاشرتی تحفظ کی ضمانت ہے۔

انہوں نے کہا:
“نکاح اور مضبوط خاندانی نظام ہی بچوں کو محبت، تربیت اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اگر خاندان کمزور ہو تو بچے بے راہ روی، نفسیاتی مسائل اور معاشرتی بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔”

آخر میں اپیل

مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے والدین، اساتذہ اور سماجی اداروں سے اپیل کی کہ بچوں کی فلاح، تعلیم، تربیت اور تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔