تحفظِ اوقاف ہر مسلمان کا مذہبی و سماجی فریضہ: ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
عثمانیہ یونیورسٹی اورینٹل اُردو اسکالرس اسوسی ایشن کی صدر ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے اوقاف کے اہمیت اور اس کے تحفظ کی دینی، فقہی اور قانونی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وقف اسلامی تہذیب کا بنیادی ستون ہے، جس کی حفاظت ہر مسلمان پر لازم ہے۔
حیدرآباد: عثمانیہ یونیورسٹی اورینٹل اُردو اسکالرس اسوسی ایشن کی صدر ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے اوقاف کے اہمیت اور اس کے تحفظ کی دینی، فقہی اور قانونی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وقف اسلامی تہذیب کا بنیادی ستون ہے، جس کی حفاظت ہر مسلمان پر لازم ہے۔
انہوں نے فقہاء کی متفقہ تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’وقف‘‘ کا بنیادی اصول حَبْسُ الْأَصْلِ وَتَسْبِيلُ الْمَنْفَعَةِ یعنی اصل کو روک کر اس کی منفعت اللہ کے لیے جاری کرنا ہے۔ اسی لیے وقف کی جائیداد نہ فروخت کی جا سکتی ہے، نہ ہبہ، نہ وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ اس حکم کے بارے میں فقہِ حنفی، مالکی، شافعی اور فقہ جعفری تمام مکاتبِ فکر میں اتفاق پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فہمیدہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں وقف کی حیثیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ سورۂ آل عمران کی آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّىٰ تُنْفِقُوا مِمّا تُحِبّونَ اور سورۂ بقرہ کی آیت 261 وقف اور صدقۂ جاریہ کے عظیم اجر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
انہوں نے صحیح مسلم کی حدیث «إِذَا مَاتَ الإِنسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلاثٍ» کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وقف ہی وہ جاری صدقہ ہے جو مرنے کے بعد بھی انسان کے نامۂ اعمال میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وقف پر ناجائز قبضہ یا خیانت سنگین شرعی جرم ہے۔ حدیثِ نبوی ﷺ “من غصب شبراً من الأرض…” کے تحت زمین کے ایک بالشت کے غصب پر بھی سخت وعید بیان کی گئی ہے۔
ہندوستان میں وقف کی قانونی حیثیت
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے واضح کیا کہ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 26 مذہبی اداروں کو اپنی املاک کے تحفظ اور انتظام کا مکمل حق دیتا ہے۔
وقف ایک “Permanent and Perpetual dedication to God” ہے، اس لیے وقف کی جائیداد نہ فروخت ہو سکتی ہے، نہ گروی۔
انہوں نے بتایا کہ وقف ایکٹ کی دفعات 54، 83 اور 104-A وقف املاک کے تحفظ، ناجائز قابضین کے خلاف کارروائی اور حکومتی اداروں کی مداخلت پر واضح پابندی لگاتی ہیں۔
وقف کے تحفظ کے لیے قوم کی ذمہ داری
ڈاکٹر فہمیدہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وقف کی حفاظت مذہبی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ:
- ناجائز قبضوں کی اطلاع وقف بورڈ کو دی جائے
- وقف ٹریبونل میں قانونی چارہ جوئی کی جائے
- وقف املاک کا ریکارڈ محفوظ رکھا جائے
- مساجد و مدارس کی کمیٹیوں کو مضبوط کیا جائے
انہوں نے کہا کہ اگر ہم مالی یا عملی طور پر وقف کے تحفظ میں حصہ نہ ڈال سکیں تو کم از کم قلمی، فکری اور سماجی بیداری کے ذریعے اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔
بیان کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم نے اپنی وقف املاک کے تحفظ میں کوتاہی برتی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، اور ہم اللہ کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ انہوں نے اہلِ علم و دانش اور اسکالرس سے اپیل کی کہ وقف کے شعور کو عام کریں اور قوم کو اس اہم دینی و سماجی فریضے کی ادائیگی کے لیے بیدار کریں۔