حیدرآباد

پروفیسررحمت یوسف زئی نے اردو زبان کو کمپیوٹر سے مربوط کرنے میں قابل قدر خدمت انجام دی، کتاب کی رسم اجرائی پر دانشوران کا اظہار خیال

اودیش رانی باوا نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو دنیا میں ان کا بڑا نام ہے اور وہ ایک بڑے شاعر ہونے کےباوجود ان کے دل میں ایک بچہ بھی رہتا ہے۔

حیدرآباد: بزم یاران رحمت کے زیر اہتمام کل ممتاز ادیب وشاعر پروفیسررحمت یوسف زئی کے دوسرے شعری مجموعہ "دھواں الفاظ کا” کی رسم اجرائی میڈیا پلس,  گن فاونڈری حیدرآباد میں  ڈاکٹر اودھیش رانی باوا کے ہاتھوں عمل میں آئی۔

متعلقہ خبریں
لٹل فلاور ہائی اسکول نے ’’ لٹل فلاور فیسٹا کم سالانہ تقریب 2024-2025 کا انعقاد کیا
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو تمام صحابہ کرام ؓ پر فضیلت ، مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین رحمت حسامی کا جامع مسجد دارالشفاء میں خطاب
جمعیتہ علماء ضلع نظام آباد کے زیر اہتمام جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئز وتفسیم انعامات
مائناریٹیز کیلئے آبادی کے تناسب سے سیاسی اور سماجی نمائندگی دینے حکومت تلنگانہ سے جمعیۃ علماء کا مطالبہ، مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان
انشائیہ نگاری میں خواتین کا بھی اہم رول ـ ڈاکٹر تبسم آراء کی خدمات قابل تحسین ،خواجہ شوق ہال میں کتاب کی رسم اجراء

تقریب کی صدارت اعجاز عبید نے جب کہ شاہد حسین زبیری، مصحف اقبال توصیفی، ڈاکٹر خالد قادری، پروفیسر نسیم الدین فریس بحثیت مہمانان خصوصی اس تقریب میں شرکت کی۔

ڈاکٹر روف خیرنے نظامت کے فرائض دیتے ہوئے صاحب کتاب پروفیسررحمت یوسف زئی کے علاوہ تمام مہمانان خصوصی کا مکمل اوراورجامع تعارف پیش کیا۔ممتاز ادیب و شاعر مصحف اقبال توصیفی نے اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاعر کا اصل تعارف اس کی شاعری ہوتی ہےپروفیسررحمت یوسف زئی ایک

ہمہ صفت انسان ہیں اگرچہ کہ وہ ایک عمر گزارنے کے بعد اپنا شعری مجموعہ کلام شائع کرنے کی طرف راغب ہوئے۔انہوں نے اپنی دو ڈائریاں کھودی اس کے باوجود ان کے دو مجموعہ  کلام منظر عام پرآگئے ہیں۔ان کی عفوان شباب کی شاعری ان کے دو مجموعوں میں شامل ہے۔

ان کاکلام پڑھ کرلگتا ہے کہ ہم بھی ان کےساتھ ساتھ زندگی کا سفرطےکررہے ہوں۔انہوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو قریب سے دیکھا اور اسے اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔

اودیش رانی باوا نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو دنیا میں ان کا بڑا نام ہے اور وہ ایک بڑے شاعر ہونے کےباوجود ان کے دل میں ایک بچہ بھی رہتا ہے۔

کانچہ کھلنے والا یہ بچہ نویں جماعت میں پہلا پتھر بسم اللہ لکھ کر ثابت کیا کہ وہ پیدائشی شاعر ہے۔بکھرے اوراق  دھواں الفاظ کے بعد شایع ہونے والا ان کا دوسرا مجموعہ "دھواں الفاظ کا” 1970 سے 1980 تک کے کلام پر مشتمل ہے انہوں نےنہایت باریک بینی سے حالات مشاہدہ کیا ہے اور اس کو شعری پراہن عطا کیا  ۔

مخدوم ایوارڈ یافتہ ادیب و نقاد پروفیسر نسیم الدین فریس نے اس موقع پر ہےپروفیسررحمت یوسف زئی کی شاعری اور شخصیت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

سہیل یوسف زئی نے اپنے پروفیسر رحمت یوسف زئی سےمتعلق لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ان کےوالد محترم شاعری کے علاوہ دیگر فنون میں بھی دسترس حاصل ہے وہ پیانو بجانے میں ماہر ہیں۔ نیزناخن سے تصویر بنایا کرتے تھے۔1980میں جب کمپوٹر ایجاد ہوا تو انہوں نےاردو زبان کو کمپیوٹر سے مربوط کرنے میں کافی کوشش کیں۔

سہیل یوسف زئی پروفیسر رحمت یوسف کی شاعری کو ڈیجٹلائز کرنے کا بھی وعدہ کیا۔اس تقریب سے اعجاز زبیر،شاہد حسین زبیری ،ڈاکٹر خالد قادری نے بھی مخاطب کیا.آخر میں داعی محفل پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نےوہی لکھا جو سوچا جو دیکھا یا جوکچھ ان کے آس پاس رونما ہوا۔اس تقریب رسم رونمائی میں سعداللہ خان سبیل، لطیف الدین ، افتخار عابد کے علاوہ باذوق خواتین کی قابل لحاظ تعداد موجود تھی۔