تلنگانہ

وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے وزیراعلٰی اور چیف جسٹس سے ٹریبونل کو مضبوط کرنے کی گزارش

انہوں نے کہا کہ سی ای او محمد اسد اللہ نے اپنی نگرانی میں اس مہم کو کامیابی سے مکمل کروانے میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ ڈسٹرکٹ انسپکٹرز، آئی ٹی ٹیم، فیلڈ اسٹاف اور دیگر افراد نے مشکل حالات کے باوجود قابلِ ستائش خدمات انجام دیں۔

حیدرآباد: جمعیتہ علماء تلنگانہ کے صدر حضرت مولانا شاہ سید احسان الدین رشادی و قاسمی نے امید پورٹل پر وقف جائیدادوں کے اندراج کے عمل میں تعاون کرنے پر وزیراعلٰی تلنگانہ، میناریٹی ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، وقف بورڈ چیئرمین، اور دیگر حکام کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔

متعلقہ خبریں
کےسی آر کی تحریک سے ہی علیحدہ ریاست تلنگانہ قائم ہوئی – کانگریس نے عوامی مفادات کوبہت نقصان پہنچایا :عبدالمقیت چندا
طب یونانی انسانی صحت اور معاشی استحکام کا ضامن، حکیم غریبوں کے مسیحا قرار
غریبوں اور بے سہارا افراد کے لیے سہارا بنا تانڈور کا اے ایس جی ایم کے چیریٹیبل ٹرسٹ
میوا کی جانب سے زیڈ ایچ مسعود کے اعزاز میں شاندار تہنیتی تقریب،اکتالیس سالہ تعلیمی خدمات کا بھرپور اعتراف
کوہ مولا علی: کویتا کا عقیدت بھرا دورہ، خادمین کے مسائل اور ترقیاتی کاموں کی سست روی پر اظہار برہمی

انہوں نے کہا کہ سی ای او محمد اسد اللہ نے اپنی نگرانی میں اس مہم کو کامیابی سے مکمل کروانے میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ ڈسٹرکٹ انسپکٹرز، آئی ٹی ٹیم، فیلڈ اسٹاف اور دیگر افراد نے مشکل حالات کے باوجود قابلِ ستائش خدمات انجام دیں۔

مولانا رشادی نے کہا کہ اگر مزید چھ ماہ کی مہلت مل جاتی تو باقی تمام وقف جائیدادوں کا اندراج بھی مکمل ہوسکتا تھا، تاہم وقف بورڈ نے مختصر مدت میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے، جس میں مختلف ملی تنظیموں، علما، نوجوانوں اور رضاکاروں نے فعال کردار ادا کیا۔

اسی دوران جمعیتہ علماء تلنگانہ کے جنرل سکریٹری جناب حافظ پیر خلیق احمد صابر نے مطالبہ کیا ہے کہ وقف ٹریبونل سے رجوع کرتے ہوئے ان وقف مساجد، عاشور خانوں اور قبرستانوں کے لیے مزید تین ماہ کی توسیع فراہم کی جائے جن کا اندراج تاحال باقی ہے، تاکہ کسی وقف جائیداد کا تحفظ نامکمل نہ رہ جائے۔

انہوں نے عزت مآب وزیراعلٰی اور چیف جسٹس تلنگانہ سے یہ گزارش بھی کی کہ وقف ٹریبونل کو مضبوط کیا جائے اور بینچ کی مکمل تشکیل عمل میں لائی جائے، تاکہ وقف جائیدادوں سے متعلق زیر التواء معاملات اور دیگر مسائل کا بروقت حل ہوسکے۔

اس موقع پر قاضی اکرام اللہ (سابق ناظر القضاۃ)، مولانا عبد الرحمن، مولانا اکبر خان، مولانا عبد الستار، مولانا اسماعیل شریف، مولانا سمیع، مفتی صہیب، حافظ عتیق، حافظ شمس الدین اور حافظ فرقان بھی موجود تھے۔