سیاستمضامین

کیاراہول گاندھی کی یاترا ملک کی تصویر بدل پائے گی؟

سید سرفراز احمد (بھینسہ)

وقت اور حالات بدلنے دیر نہیں لگتی لیکن اسکو بدلنے کا ہنر ضرور ہونا چاہیئے خاص طور پر سیاست میں کونسا وقت کب کروٹیں بدلتا ہے اسکا اندازہ خود سیاسی قائدین کو بھی نہیں ہوتا اچانک ایک سیلاب کی مانند سیاسی بھونچال آبھی جاتا ہے اور چلا بھی جاتا ہے لیکن اسکے پیچھے کا اصل راز محنت و مشقت ہے بھلے ہی چال بازی ہوکہ دغا بازی جو موقع کی مناسبت سے شاطرانہ چال چلے گا وہی سیاست میں آگے بڑھ سکتا ہے بناء محنت کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا سیاسی قائدین کی محنت و مشقت عام افراد سے بالکل الگ طرز کی ہوتی ہے اگر ہم ہمارے ملک کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہیکہ جب کبھی بھی ملک کو متحد کرنے یا منتشر کرنے یا کسی بھی پارٹی کو مضبوط بنانے یا سیاسی چھاپ کو موثر بنانے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے تو زمینی کام کا سہارا لیا جاتا ہے جسمیں عوامی یاترابہت کارگر ثابت ہوتی ہے اور جب کبھی یاترا ئیںنکالی گئیں ان کا اثربہت مثبت بھی رہا خواہ وہ یاترا منفی سوچ سے ہی کیوں نہ نکالی گئی ہو کیونکہ یاترابس سے ہو یا پیدل وہ شہر شہر گاؤں گاؤں تک رسائی حاصل کرتی ہے اورایک قائد کا تعلق راست عام آدمی سے ہوتا ہے اور وہ ایک عام فرد کیلئے پر کشش اور بہت خاص بن جاتا ہے جسکے بعد سے اس قائد کی اسکی باتوں کی اسکی پارٹی کی مقبولیت بڑھ جاتی ہے اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو گاندھی جی کی ستیہ گرہ‘ڈانڈی مارچ یاترا ۔اڈوانی کی رتھ یاترا جو عوام میں مقبولیت حاصل کی تھیں اسی طرح متحدہ آندھرا پردیش پر جب تلگو دیشم کا قبضہ تھا جبکہ کانگریس کا نام و نشاں بھی باقی نہ رہا تھا ایسے میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے پورے متحدہ آندھرا پردیش میں بس یاترا شروع کی تھی اور شہر شہر گاؤں گاؤں پہنچ کر عوام کے درمیان رہے پھر بعد ازاں متحدہ آندھرا پردیش پر کانگریس برسر اقتدار آجاتی ہے کہنا یہ مقصود ہیکہ یاترا سے مثبت نتائج نکلتے ہیں بلکہ مرکزی سطح کی کانگریس کو جو کام آج سے پانچ سال قبل کرنا چاہیئے تھا وہ آج کرنے جارہے ہیں بہر حال دیر آید درست آید ۔
راہول گاندھی کی ملک گیر سطح پر کشمیر سے کنیا کماری بھارت جوڑو یاترا جسمیں کل بارہ ریاستوں میں 3500 کلو میٹر کا احاطہ کرنے والی ہےجسکاآغاز 7 ستمبر سے ہونے جارہا ہے جو لگ بھگ 150 دن تک جاری رہے گی یہ یاترا موجودہ وقت اور حالات کی مناسبت سے بہت ہی ناگزیر ہے چونکہ ملک کا وہ خاکہ جو 2014 سے پہلے تھا اور 2022 کاموجودہ خاکہ ان دونوں کے درمیانی آٹھ سال کے فاصلے نے ملک کی یادگار تصویر بدل کر رکھ دی ان آٹھ سالوں میں حکمران جماعت کی جوڑی مودی اور شاہ نے چانکیہ بنکر فی الحال خود کو مضبوط اور اپوزیشن کو کمزور کرنے میں بہت مصروف ہوچکے ہیں مشرق سے مغرب شمال سے جنوب ملک کی ہر سمت پر گہری نظر رکھی جارہی ہے انتہائی دانشمندی سےنفرت کا خوب پرچارکیاجارہا ہے حد تو یہ ہوگئی پانچ روز قبل یوپی میں گھر کے احاطہ میں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں تو بناء کوئی ثبوت کے مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے اور پھر بعد میں مقدمہ واپس لے لیا جاتا ہے کتنی شرمناک بات ہے اس واقعہ سے ہم اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سماج میں نفرت کی دیوار دل و دماغ میں کس طرح سے پیوست کردی گئی یہی مودی اور شاہ کی جوڑی نےمندر مسجد کی سیاست بڑے انوکھے انداز سے کھیلی کرناٹک میں بنگلور عیدگاہ ہبلی عیدگاہ کو زبردستی متنازعہ بناکر ہنگامہ کھڑا کیا گیا کیونکہ کرناٹک میں بھاجپا کی حکمرانی ہے اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیئے علاقائی جماعتوں میں آپسی الٹ پھیر کرتے ہوئے اپنا سکہ جمایا اپنے حلیف پارٹیوں کے سیاسی قائدین پرنجی معاملات پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ سی بی آئی جیسے تفتیشی اداروں کے ذریعہ ضرب کاری لگانے میں مصروف کردیا حال تو یہ ہوگیا کہ سماجی جہد کاروں کو بھی نہیں بخشا گیا بلکہ حق گوئی کی زبان کو بند کرنے کیلئے قانون کا بے جا استعمال کیا گیاحتی کہ ملک کی طاقتور خاتون سونیا گاندھی اور راہول گاندھی بھی ای ڈی کی تحقیقات سے بچ نہیں سکے جبکہ ان ہی حکمرانوں نے ملک کی حالت بد سے بدتر بنادی مہنگائی کی مار نے عوام کا گھر اجاڑدیا معیشت تباہی سے آگے نکل چکی ہے دنیا کے امیر ترین فہرست میں شامل رہنےوالے بھارتی تاجرین مزید دولتمند بن رہے ہیں اڈانی دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص بن چکے ہیں یہ بھی مودی جی کی دین ہی ہے پر غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں گویا کہ عوام کے سر پر حکومت تو ہے پر شفقت کا سایہ ہے نہ ہمدردی کا دلاسہ حیرت ہوتی ہے جب 2014 سے پہلے کے حالات پر غور و فکر کرتے ہوئے موجودہ حالات کا تقابل کیا جاتا ہے توجسمیں بہت بڑا امتیاز نظر آتا ہے جو گنگا جمنی کی تہذیب پہلے تھی اسکا چراغ اب آہستہ آہستہ بجھ رہا ہے جو محبت اور رواداری تھی وہ اب بے دم ہوچکی ہے کیونکہ وہی اس ملک کے اچھے دن تھے اب تو مودی اور شاہ کے اچھے دن ہے اور انکے ماتحت یا انکے آگے جھکنے والوں کے لیکن یہ حکمران اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ جو مضبوط ستون کی طرح مجسمہ بنے ہوئے ہیں اور عام عوام کو لڑکھڑاتا کھلا چھوڑ دیا ہے ایسا لگتا ہیکہ کوئی بھی ملک کا داخلی مسئلہ خود عوام ہی اسکی ذمہ دار ہے جیسے یہ ملک کے ذمہ دار ہی نہیں ہیں ویسے ایسے حکمرانوں سے کوئی توقع بھی نہیں کی جانی چاہیئے ورنہ نقصان عوام کا اور اس ملک کا ہوگا کیونکہ جو ملک کا وزیر اعظم ہو یا وزیر داخلہ ملک کے حساس مسائل پر ایک اف پیش نہیں کرسکتے تو ایسے حکمرانوں سے توقعات بھی نہیں کرنا چاہیئے اور نہ حیرت نہ تعجب اگر یہ سب ہم کریں گے تو انسان فطری طور پر مایوس ہوجائے گا لہذا مایوس ہونے کے بجائے آئندہ کے لائحہ عمل کو ترجیح دیں ۔
بڑھتی نفرت کے ماحول میں راہول گاندھی جس مہم کا آغاز کرنے جارہے ہیں وہ ملک کے مفاد میں اور خود کانگریس کے مفاد میں انتہائی اہم ہے اگر چہ کہ یہ مہم پوری کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچے‘ پچھلےآٹھ سال میں بھاجپا نے نفرت کی جو دیوار اٹھائی ہے اسکو آسانی سےڈھایا نہیں کیا جاسکتا بلکہ مسلسل میدان عمل میں مصروف ہوکرکام کرنا ہوگا بیان بازی سیاسی مشغلہ کا حصہ ہوسکتا لیکن عوام کا دل ان تک پہنچ کر ہی جیتاجاسکتا ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا راہول گاندھی کی یاترا ملک کی تصویر بدل پائے گی؟یقیناًاس یاترا سے ملک کی تصویر ضرور بدلے گی پر یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے اور نہ ہی مشکل کیونکہ اس یاترا سے جو تبدیلی آئے گی اسکے بعد بھی راہول گاندھی اور کانگریس کو اپنی جدوجہد کو کم نہیں کرنا ہوگا بلکہ پرینکا گاندھی کو بھی میدان سنبھالنا ہوگا اور عوامی رابطوں کا ایک طویل سلسلہ بنانا چاہیئے تاکہ کوئی کمزوری راستے کا کانٹا نہ بن سکے راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اگراپنے پورے منصوبہ کے تحت چلتی ہے تو اسکے تین بڑے نتائج نکل سکتے ہیں ایک تو اس یاترا سے جمہوریت کی بقاء سیکولرزم پر عمل اور قومی اتحاد کو دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے دوسرے خود کانگریس میں ایک نئی جان واپس آسکتی ہے خود راہول گاندھی بھی عوام سے قریب ترہونے کے بعد عوام کی بڑی اکثریت کے پسندیدہ قائد بھی بن سکتے ہیں اورکانگریس دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام بھی حاصل کرسکتی ہے تیسرا بڑا نتیجہ یہ کہ علاقائی جماعتیں بھی کانگریس کے شانہ بہ شانہ آنے کیلئے تیار ہوسکتی ہیں جو آئندہ کے لائحہ عمل کیلئے نفع بخش ثابت ہوسکتی ہیں لیکن ان نتائج کیلئے کانگریس کو چاہیئے کہ وہ جوش کو حلق کی ہڈی بننے نہ دیں بلکہ پورے ہوش اور دانشمندی کے ساتھ حکومت کی ایک ایک ناکامی ہندو راشٹر کے نقصانات ملک کی سلامتی کا اصل راستہ جمہوریت اور سیکولرزم کے ساتھ ساتھ فاشزم کو بھی عوام کے سامنے کھل کر پیش کریں اور عوامی مسائل سے آگہی حاصل کریں ۔
راہول گاندھی کی اس جنگ کو کوئی بھی علاقائی سیاسی پارٹی یاسیاستدان یا کسی بھی پارٹی کو پسند کرنے والی عوام چاہے و اکثریتی ہو کہ اقلیتی وہ پارٹی سے اور راہول گاندھی سے اختلافات کو دور رکھتے ہوئے اس یاترا کو نہ صرف کانگریس یا راہول گاندھی کی لڑائی نہ سمجھے بلکہ اسکے شریک بنناایک عظیم جنگ میں شرکت کے مترادف ہے جو جمہوریت کا تحفظ اور سیکولرزم کی بقاء کی لڑائی ہے جیسے بھاجپا کا خواب ہیکہ ہندو راشٹر بنایا جائے ویسے ہی گاندھی پریوار کا بھی یہی مقصد ہیکہ ملک میں سیکولرزم کو مضبوط بنایا جائے جمہوریت کو کھوکھلا ہونے سے بچایا جائے اسی لیئے راہول گاندھی کی یہ لڑائی ملک میں امن اماں چین و سکون کو بحال کرنے کی لڑائی ہےجسمیں ہرفرد کو شامل ہونا چاہیئے ۔

a3w
a3w