سنبھل جامع مسجد کی سروے رپورٹ بند لفافے میں عدالت میں پیش کردی گئی
جامعہ مسجد سروے رپورٹ میں کیا سامنے آیا؟ کورٹ کمشنر رمیش سنگھ راگھَو نے سروے رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ سروے دو شفٹوں میں کیا گیا تھا۔ سروے کے دوران 5 گھنٹے سے زیادہ کی ویڈیوز بنائی گئی تھیں اور 60 سے زیادہ تصاویر بھی لی گئی تھیں۔
لکھنؤ: سنبھل جامعہ مسجد کی سروے رپورٹ چندوسی عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ کورٹ کمشنر رمیش سنگھ راگھَو نے بتایا کہ بند لفافے میں جامعہ مسجد کے سروے کے دوران بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز بھی رپورٹ میں شامل کی گئی ہیں۔ کورٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ تقریباً 43 صفحات کی سروے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے، جس میں جامعہ مسجد کے سروے کے دوران بنائی گئی 60 تصاویر اور 5 گھنٹے سے زیادہ کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی شامل ہے۔
جامع مسجد سروے رپورٹ میں کیا سامنے آیا؟ کورٹ کمشنر رمیش سنگھ راگھَو نے سروے رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ سروے دو شفٹوں میں کیا گیا تھا۔ سروے کے دوران 5 گھنٹے سے زیادہ کی ویڈیوز بنائی گئی تھیں اور 60 سے زیادہ تصاویر بھی لی گئی تھیں۔ سروے رپورٹ میں یہ سب کچھ پیش کیا گیا ہے۔ سروے کے دوران دونوں فریقوں کی باتوں کا خاص خیال رکھا گیا۔ کورٹ کمشنر نے مزید بتایا کہ 43 صفحات کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے۔
جب کورٹ کمشنر سے پوچھا گیا کہ سروے کے دوران انہوں نے جامعہ مسجد میں کیا دیکھا اور رپورٹ میں کیا نکات سامنے آئے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کی اس معاملہ میں رہنمائی کی ہدایت ہے، اس لئے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ ہم نے بند لفافے میں رپورٹ پیش کر دی ہے اور اس دوران دونوں فریقوں کے وکلا عدالت میں موجود تھے۔ اب عدالت ہی اس معاملے پر فیصلہ کرے گی۔
ہندو فریق کا ہرہر مندر ہونے کا دعویٰ دراصل سنبھل کی جامعہ مسجد کے حوالے سے ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ یہاں پہلے ہرہر مندر ہوا کرتا تھا۔ مغل دور میں قدیم ہرہر مندر کو توڑ کر جامعہ مسجد کا تعمیر کیا گیا۔ ہندو فریق کی جانب سے اکبرناما، بابرناما سمیت کئی ذرائع کا حوالہ دیا گیا تھا۔ ہندو فریق نے برطانوی دور میں سامنے آئی اے ایس آئی رپورٹ کا بھی ذکر کیا تھا۔
دوسری طرف مسلم فریق کا کہنا تھا کہ یہاں کبھی کوئی مندر نہیں تھا اور یہ مسجد مغل دور میں بنائی گئی تھی۔ مسلم فریق نے ہندو فریق کے دعووں کو مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔
اس کے بعد عدالت کے حکم پر یہاں کورٹ کمشنر کے ذریعے سروے کیا گیا تھا۔ یہ سروے 2 مراحل میں کیا گیا تھا، جن میں دوسرے مرحلے کے دوران سمبھل میں شدید فسادات بھی ہوئے تھے۔
1875 کی اے ایس آئی رپورٹ میں سنبھل جامعہ مسجد کے بارے میں کیا لکھا گیا ہے؟ سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد کے بارے میں ہندوستانی آثار قدیمہ سروے (ASI) کی 1875 کی رپورٹ میں کئی حیران کن حقائق درج ہیں۔
ہندوستانی آثار قدیمہ سروے کے اس وقت کے افسر اے سی ایل کارلائل نے اپنی رپورٹ میں سمبھل کی شاہی جامعہ مسجد کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ رپورٹ میں سنبھل شاہی جامعہ مسجد کے اندر اور باہر کے ستونوں کو قدیم ہندو مندر کے ستون قرار دیا گیا ہے، جنہیں پلاسٹر لگا کر چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، مسجد کے ایک ستون سے پلاسٹر ہٹانے پر قدیم ہندو مندر میں استعمال ہونے والے سرخ رنگ کے ستون نظر آئے تھے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسجد میں ایسے کئی اشارے ہیں جو اس کے قدیم ہندو مندر ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ایک شِلے کا بھی ذکر اے ایس آئی کی 1875 کی رپورٹ میں ایک شِلے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو ایک بڑا ثبوت قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مسجد میں ایک شِلہ ہے جس پر لکھا ہے کہ اس کا تعمیر 933 ہجری میں میر ہندو بیگ نے مکمل کیا تھا۔ میر ہندو بیگ بابَر کا درباری تھا، جس نے ایک ہندو مندر کو مسجد میں تبدیل کیا تھا۔ اس کے علاوہ، بابَر کی تحریر کردہ بابرنامہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بابَر کے حکم پر اس کے درباری میر ہندو بیگ نے سمبھل کے ہندو مندر کو جامعہ مسجد میں تبدیل کیا۔