ہائی کورٹ کے تبصرہ کیخلاف شرجیل امام سپریم کورٹ سے رجوع
امام کی درخواست میں ادعا کیا گیا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے کئے گئے ان مشاہدات کو درست ٹھہرانے کی کوئی قطعی شہادت نہیں ہے اور یہ دستور ہند کی دفعہ 21 کے تحت آزادانہ تحقیق کے ان کے بنیادی حق کو غصب کرلیتا ہے۔
نئی دہلی: جہدکار و جے این یو کے سابق طالب علم شرجیل امام سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے دہلی فسادات کیس میں ساتھی ملزم عمر خالد کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف کئے گئے چند ریمارکس کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔
دہلی ہائی کورٹ نے خالد کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے امام کو ’سازش کے قابل استدلال سربراہ‘ قرار دیا تھا۔ امام کی جانب سے داخل کردہ درخواست میں کہا گیا کہ وہ ہائی کورٹ کے 18 /اکتوبر کو صادر کردہ احکام کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوئے ہیں۔
جس میں عدالت نے خالد کی باقاعدہ ضمانت کے لئے کی گئی اپیل کو رد کرتے ہوئے اس درخواست گزار (جو ہائی کورٹ میں مذکورہ درخواست میں فریق نہیں تھے) کے تعلق سے کچھ مشاہدات اور ریمارکس کئے تھے، اس لئے وہ کئی فیصلوں میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے مدون کردہ اصول کے خلاف ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ خالد امام سے مستقل رابطہ میں تھا جو ’سازش کا قابل استدلال ذمہ دار‘ ہے۔ اور انہیں ایک پیراگراف میں ’اصل سازشی‘ قرار دیا گیا۔ عدالت العالیہ نے دہلی پولیس کی جانب سے امام کو ’اصل سازشی‘ قرار دینے کا نوٹ لیتے ہوئے نشان دہی کی کہ وہ جے این یو کے مسلم طلبہ کے واٹس ایپ گروپ کا ایک اہم رکن تھا جو 4 /دسمبر 2019 کو شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے ایک یا دو دن بعد تشکیل دیا گیا تھا۔
امام کی درخواست میں ادعا کیا گیا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے کئے گئے ان مشاہدات کو درست ٹھہرانے کی کوئی قطعی شہادت نہیں ہے اور یہ دستور ہند کی دفعہ 21 کے تحت آزادانہ تحقیق کے ان کے بنیادی حق کو غصب کرلیتا ہے۔