لوک سبھا میں مسلم خواتین کی نمائندگی شرمناک حد تک کم۔ ان ریاستوں سے اقلیتی فرقہ کی ایک بھی عورت پارلیمنٹ نہیں پہنچی۔ نئی کتاب میں انکشاف
لوک سبھا میں خواتین کی کم نمائندگی کھلی حقیقت ہے لیکن مسلم خاتون ارکان کی نمائندگی تو اور بھی کم رہی ہے۔ ایک نئی کتاب کے بموجب آزادی کے بعد سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کیلئے صرف 18 مسلم خواتین منتخب ہوئیں۔
نئی دہلی (پی ٹی آئی) لوک سبھا میں خواتین کی کم نمائندگی کھلی حقیقت ہے لیکن مسلم خاتون ارکان کی نمائندگی تو اور بھی کم رہی ہے۔ ایک نئی کتاب کے بموجب آزادی کے بعد سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کیلئے صرف 18 مسلم خواتین منتخب ہوئیں۔
گھرانہ شاہی سیاست، جمہوریت کے جڑ پکڑنے کیلئے ساز گار نہ ہو لیکن اِس نے مسلم خواتین کو پارلیمنٹ میں پہنچانے کیلئے مثبت رول ادا کیا۔ 18 مسلم خواتین میں 13 کا تعلق سیاسی گھرانوں سے رہا ہے۔ نوابی خاندان سے لیکر ایک چائے والے سے سیاستداں بنے شخص کی بیوی تک 18 مسلم خواتین لوک سبھا کی اقتدار کی راہداریوں میں پہنچیں۔
ا ن سبھی کی دلچسپ کہانی ہے لیکن ایک مشترک ہے کہ اِنہیں اقتدار کے راستے میں ہمیشہ جدوجہد کرنا پڑا اور اُن کی راہ میں رکاوٹیں آئیں۔ اِن 18 مسلم خواتین کی کہانی آنے والی کتاب "Missing from the House–Muslim women in the Lok Sabha” میں بیان کی گئی ہے جسے رشید قدوائی اور امبر کمار گھوش نے لکھا ہے۔
رشید قدوائی کا کہنا ہے کہ وہ ایوان بالا میں پہنچنے والی 20 مسلم خواتین کی پروفائل لکھنا چاہتے تھے لیکن اِن میں دو سبھاشنی علی اور آفرین علی نے کھلے عام کہہ دیا کہ وہ اسلام پر عمل نہیں کرتیں۔ جگرناٹ پبلشرس کی یہ کتاب آئندہ ماہ ریلیز ہونے والی ہے۔ اِس میں رشید قدوائی اور امبر کمار گھوش نے لکھا ہے کہ 1951-52 میں پہلے پارلیمانی الیکشن کے بعد سے آج تک لوک سبھا میں صرف 18 مسلم خواتین پہنچیں۔
یہ چونکادینے والی انتہائی کم تعداد ہے کیونکہ ہندوستان کی 146 کروڑ کی آبادی میں مسلم خواتین کا تناسب تقریباً 7.1 فیصد ہے۔ 2025 تک 18لوک سبھا تشکیل پائیں۔ لوک سبھا میں 5 مرتبہ ایک بھی مسلم رکن موجود نہیں تھی۔ 543 رکنی ایوان زیریں میں کسی بھی میعاد میں منتقل مسلم خواتین کی تعداد کبھی بھی 4 سے آگے نہیں بڑھی۔
کتاب میں نشاندہی کی گئی کہ شمال سے زیادہ بہتر سیاسی نمائندگی کیلئے جانی جانے والی5 جنوبی ریاستوں کیرالا، ٹاملناڈو، کرناٹک، آندھراپردیش اور تلنگانہ سے ایک بھی مسلم خاتون رکن لوک سبھا نہیں بنی حالانکہ ان ریاستوں میں خواندگی کی شرح بہتر ہے اور سماجی ومعاشی ترقی بھی ہوئی ہے۔
لوک سبھا کیلئے منتخب ہونے والی 18 مسلم خواتین میں مفیدہ احمد(1957 کانگریس)، زہرہ بین اکبر بھائی چاوڑہ(کانگریس 1962-67)، میمونہ سلطان(کانگریس 1957-67)، بیگم اختر جہاں عبداللہ(نیشنل کانفرنس 1977-79اور 1984-89)، رشیدہ حق (کانگریس 1977-79)، محسنہ قدوائی (کانگریس 1977-89)، عابدہ احمد(کانگریس 1981-89)، نور بانو (کانگریس 1996, 1999-2004)، رباب سیدہ (سماج وادی پارٹی 2004-09) اور محبوبہ مفتی(پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی 2004-09, 2014-19) شامل ہیں۔
پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں پہنچنے والی دیگر مسلم خواتین میں تبسم حسن(سماج وادی پارٹی، لوک دل، بہوجن سماج پارٹی2009-14)، موسم نور (ترنمول کانگریس 2009-19)، قیصر جہاں (بہوجن سماج پارٹی2009-14)، ممتاز سنگھمیتا(ترنمول کانگریس 2014-19)، ساجدہ احمد(ترنمول کانگریس 2014-24)، رانی نارہ (کانگریس 1998-2004, 2009-14)، نصرت جہاں روہی (ترنمول کانگریس2019-24) اور اقراء حسن (سماج وادی پارٹی 2024) شامل ہیں۔ ہندوستانی سیاست پر انمٹ چھاپ چھوڑنے والی با اثر سیاسی شخصیت محسنہ قدوائی کی تھی۔
وہ نہ صرف لوک سبھا میں داخل ہوئیں بلکہ اُنہیں مجلس وزراء میں بھی جگہ ملی۔ اُن کے پاس لیبر، صحت، دیہی ترقیات، ٹرانسپورٹ اور شہری ترقیات کے بشمول کئی قلمدان تھے۔ کتاب میں ایک اور دلچسپ شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو چائے بیچنے والے سے سیاستداں بنے محمد جسمیر انصاری کی بیوی تھی۔ 2009 میں انصاری کی بیوی قیصر جہاں نے 4 رخی الیکشن میں کڑا مقابلہ کیا تھا حالانکہ اُنہیں تیاری کرنے اور مہم چلانے کیلئے صرف 35 دن ملے تھے۔
2009 کا لوک سبھا الیکشن قریب آتے ہی مایاوتی نے رکن اسمبلی جسمیر انصاری اور قیصرجہاں کو لکھنؤ بلایا تھا۔ جسمیر اور قیصر چیف منسٹر کے بنگلہ جانے سے قبل حضرت گنج میں ’شرما جی کی چائے‘ میں رکے تھے۔ جسمیر کو توقع تھی کہ وزار ت ملے گی لیکن اس کے بجائے مایاوتی نے اُن سے لوک سبھا الیکشن لرنے کو کہا تھا۔ چائے کا مزہ کڑوا ہوگیا تھا۔ جسمیر ا نصاری نے جواب کیلئے بیوی کی طرف دیکھا۔ اس پر سیاستدانوں کی سیاستداں مایاوتی نے جسمیر کی بے چینی بھانپ لی اور سیدھا قیصر جہاں سے پوچھا ”تو لڑے گی“۔
قیصر جہاں اور جسمیر انصاری نے فوری ہاں میں جواب دیا۔18 مسلم خواتین میں خاتون اول بیگم عابدہ احمد بھی شامل ہیں جو ہندوستان کے پانچویں صدرجمہوریہ فخر الدین علی احمد کی بیوی تھیں۔فخر الدین علی احمد کے انتقال کے 4 سال بعد بیگم عابدہ احمد، بریلی(یوپی) سے لوک سبھا الیکشن لڑنے پر آمادہ ہوئیں۔ 1981 میں اُنہوں نے یہ الیکشن جیت لیا۔وہ سیاست کے مسابقتی میدان میں قتل رکھنے والی پہلی اور واحد فرسٹ لیڈی آف انڈیا بنی۔
بیگم نور بانو (مہتاب زمانی) نے جو رام پور کے سابق حکمراں کی بیوہ تھیں سماج وادی ٹکٹ پر لوک سبھا پہنچی تھی۔ اُن کا مقابلہ اعظم خْان اور جیہ پردا سے ہوا تھا۔ اُن کے شوہر نواب سید ذوالفقار علی خان بہادر روہیلا سلطنت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1992 میں نئی دہلی سے رامپور لوٹتے ہوئے سڑک حادثہ میں جاں ہوگئے تھے۔
نور بانو نے 1996 اور 1999 کا لوک سبھا الیکشن جیتا تھا۔ 18 مسلم خواتین میں بنگالی اداکارہ نصرت جہاں روہی، 2019 میں ٹی ایم سی کے ٹکٹ پر رکن سبھا بنی تھیں۔ موجودہ لوک سبھا میں صرف ایک مسلم خاتون ایم پی ہے اور وہ سماج وادی پارٹی کی اقراء حسن چودھری ہے۔ اُنہوں نے کم عمر میں بی جے پی کے ایک سینئر قائد کو ہرایا۔ وہ لندن سے تعلیم یافتہ ہیں۔