طلباء اب گھر بیٹھے اسکول کی تعلیم حاصل کرسکیں گے
کسی وجہ سے جو طلباء اسکول نہیں جا پاتے وہ اب امریکہ اور انگلینڈ کی طرز پر گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ شیخاوتی کے سیکر اور جھنجھنو میں دو ورچوئل اسکول شروع ہوں گے۔
جھنجھنو: کسی وجہ سے جو طلباء اسکول نہیں جا پاتے وہ اب امریکہ اور انگلینڈ کی طرز پر گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ شیخاوتی کے سیکر اور جھنجھنو میں دو ورچوئل اسکول شروع ہوں گے۔
ان ورچوئل ا سکولوں میں ایسے بچے تعلیم حاصل کر سکیں گے جو کسی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں یا ان کے رشتہ دار انہیں ا سکول نہیں بھیج پا رہے ہیں۔ ایسی بیٹیوں کے لیے یہ ا سکول امید کی نئی کرن ثابت ہوں گے۔ وزیر اعلی اشوک گہلوت نے بجٹ میں اس کا اعلان کیا تھا۔ ملک میں اس طرح کا پہلا اسکول دہلی میں شروع ہوا تھا۔ طلباء کی کوچنگ کے ایسے انتظامات ہوتے رہے ہیں، وہ کوٹا، جے پور، سیکر جا کر کوچنگ میں اپنی تعلیم حاصل کرتے ہیں، نام کی خاطر انہیں دوسرے اسکول میں ڈمی داخلہ مل جاتا ہے۔
ایسے طلبہ اب ورچوئل اسکول میں بھی داخلہ لے سکیں گے۔ یہاں فیس بھی نسبتاً کم ہوگی۔ بچے اپنے موبائل، ٹیب، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کے ذریعے گھر بیٹھے پڑھ سکیں گے۔ یہاں سے وہ سوالات بھی کر سکیں گے۔ کسی دن نیٹ اور بجلی کی کمی کی وجہ سے اگر کوئی طالب علم کلاس میں نہیں آتا تھا تو دوسرے دن اسے اس دن کی ریکارڈ شدہ ویڈیو مل جائے گی۔ پڑھائی مکمل طور پر آن لائن ہوگی، جبکہ پریکٹیکل اور تحریری امتحانات کے لیے اسکول جانا ہوگا۔
یہ اسکول محکمہ تعلیم کی طرف سے تسلیم شدہ ہے۔ا سکول میں اب نویں سے بارہویں تک پڑھائی ہوگی، بعد میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ اسکول میں صرف پریکٹیکل اور تحریری امتحان دینے کے لیے آنا ہوگا، جو پڑھائی نارمل اسکولوں میں ہوتی ہے، وہی پڑھائی ان اسکولوں میں آن لائن ہوگی۔ دسویں جماعت کے بعد بچے تینوں اسٹریمز سے اپنے پسندیدہ مضامین کا انتخاب کر سکیں گے۔ بچوں کو ایک ایپ دیاجائے گا، یہاں وہ پاس ورڈ ڈال کر پڑھ سکیں گے۔ اگر کسی دن کلاس چھوٹ جاتی ہے تو دوسرے دن انہیں ایپ پر ریکارڈ شدہ ویڈیو اور مواد مل جائے گا۔
’سمگرا شکشا ابھیان‘کے اے پی سی کملیش کمارتیتروال نے کہا کہ اس سیشن سے ہی جھنجھنو میں ایک نئے دور کا اسکول شروع ہوگا۔ اسی طرح کے ایک اسکول کو سیکر میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ اسکول محکمہ تعلیم کی طرف سے تسلیم شدہ ہے۔جو بچے کسی وجہ سے ا سکول نہیں جا پا رہے ایسے اسکول ان بچوں کے لیے امید کی نئی کرن ثابت ہوں گی۔ پہلے ایسے اسکول بیرونی ممالک میں چل رہے ہیں۔