سناتن دھرم کیخلاف ریمارکس پر ادے ندھی اسٹالن کو سپریم کورٹ کی سرزنش
سپریم کورٹ نے پیر کو تامل ناڈو کے وزیر ادے ندھی اسٹالن کے مبینہ طور پر سناتن دھرم مخالف بیان کے خلاف مختلف ریاستوں میں درج مقدمات کو یکجا کرنے کی ہدایت دینے کی ان کی درخواست پر سماعت کے دوران سرزنش کی اورکہا کہ بحیثیت وزیر انہیں اس کے نتائج کا علم ہونا چاہئے تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو تامل ناڈو کے وزیر ادے ندھی اسٹالن کے مبینہ طور پر سناتن دھرم مخالف بیان کے خلاف مختلف ریاستوں میں درج مقدمات کو یکجا کرنے کی ہدایت دینے کی ان کی درخواست پر سماعت کے دوران سرزنش کی اورکہا کہ بحیثیت وزیر انہیں اس کے نتائج کا علم ہونا چاہئے تھا۔
جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے شروع سے ہی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مسٹر اسٹالن کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل اے ایم سنگھوی کو زبانی طور پر کہا کہ انہیں راحت کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرناچاہیے۔
تاہم بنچ نے، سینئر وکیل سنگھوی کی جانب سے مختلف معاملات میں عدالت کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے راحت کی گزارش کے بعد درخواست پر 15 مارچ کو سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کی۔
بنچ نے سماعت کے دوران کہا، "آپ نے (اسٹالن) آئین کے آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت تقریر اور اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کا غلط استعمال کیا۔ آپ نے مذہبی آزادی کے لئے آرٹیکل 25 کے تحت اپنے حق کا غلط استعمال کیا اوراب آپ آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت اپنے حق کا استعمال کررہے ہیں۔
بنچ نے کہا (اسٹالن کے سناتن دھرم کے بیان پر)، ‘آپ عام آدمی نہیں ہیں، آپ ایک وزیر ہیں، آپ کو اس کے نتائج کو جاننا چاہیے۔ آپ نے جو کیا، کیا اس کا نتیجہ آپ نہیں جانتے۔
مسٹر اسٹالن تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن کے بیٹے ہیں۔ الزام ہے کہ انہوں نے 2 ستمبر 2023 کو ‘سناتن دھرم خاتمہ کانفرنس’ کے سلسلے میں منعقدہ ایک میٹنگ میں مبینہ طور پر ہندو مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی تھی۔
ان کے وکیل مسٹر سنگھوی نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں مسٹر اسٹالن کے خلاف اتر پردیش، بنگلورو، پٹنہ، جموں اور دیگر ریاستوں میں ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر درخواست گزار کو ہائی کورٹ جانا پڑے تو اسے کم از کم چھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ یہ استغاثہ کو ہراساں کرنا ہے۔
سینئر وکیل نے مقدمات کو یکجا کرنے کے لیے ارنب گوسوامی، محمد زبیر، امیش دیوگن، نوپور شرما کے مقدمات سے متعلق سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا بھی حوالہ دیا۔
بنچ نے پھر پوچھا کہ جموں و کشمیر کے گواہوں کو کسی خاص ریاست میں کیوں آنا چاہئے۔