سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی چند دفعات پر لگائی روک۔ رجسٹریشن لازمی شرط برقرار
چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بنچ نے کہا کہ بعض دفعات شہریوں کے بنیادی حقوق اور آئینی اصولوں سے متصادم ہیں اور ان پر فوری عمل درآمد مناسب نہیں ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی چند متنازعہ دفعات پر عبوری روک لگادی، تاہم وقف کی رجسٹریشن کی لازمی شرط کو برقرار رکھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بنچ نے کہا کہ بعض دفعات شہریوں کے بنیادی حقوق اور آئینی اصولوں سے متصادم ہیں اور ان پر فوری عمل درآمد مناسب نہیں ہے۔
عدالت نے جن دفعات پر روک لگائی ان میں سب سے اہم دفعہ 3(1)(ر) ہے، جس کے تحت کسی شخص کے لیے وقف قائم کرنے سے پہلے کم از کم پانچ سال تک اسلام پر عمل پیرا ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ جب تک ریاستی حکومتیں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں بناتیں جس کے ذریعہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کوئی شخص پانچ سال سے زائد عرصہ سے اسلام پر عمل پیرا ہے یا نہیں، اس دفعہ پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا، ورنہ یہ ’’من مانی کارروائی‘‘ کے مترادف ہوگا۔
اسی طرح دفعہ 3C(2) کی وہ شرط بھی معطل کردی گئی جس کے مطابق وقف جائیداد کو اُس وقت تک وقف تصور نہیں کیا جانا تھا جب تک کہ نامزد سرکاری عہدیدار اپنی رپورٹ پیش نہ کردے۔ مزید برآں دفعہ 3C(3) اور دفعہ 3C(4) کو بھی روک دیا گیا ہے، جن میں کلکٹر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جائیداد کو سرکاری قرار دے کر ریونیو ریکارڈ میں تبدیلی کرے اور پھر ریاستی حکومت کے احکام کی بنیاد پر وقف بورڈ کو ریکارڈ درست کرنے کی ہدایت دی جائے۔
چیف جسٹس گوائی نے ریمارکس دیے: ’’کلکٹر کو شہریوں کے حقوق طے کرنے کا اختیار دینا اختیارات کی علیحدگی کے اصول کے خلاف ہے۔ ایگزیکٹو کو شہریوں کے بنیادی حقوق کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘
عدالت نے مزید واضح کیا کہ جب تک نامزد عہدیدار کی رپورٹ کو حتمی شکل نہیں مل جاتی، جائیداد کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
یوں سپریم کورٹ نے ایک طرف حکومت کی متنازعہ دفعات پر قدغن لگائی ہے، لیکن دوسری طرف رجسٹریشن کی شرط کو برقرار رکھتے ہوئے وقف جائیداد کے اندراج کو لازمی قرار دیا ہے۔