LAND TITLING ACT. 2022 کی روشنی میں نوٹری دستاویزات کی اساس پر خریدی ہوئی جائیدادیں ضبط ہوسکتی ہیںاولین فرصت میں اس قانونی نقص کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ نقصان ہوگا

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ اندھیر نگری کا اندھا قانون۔
٭ رجسٹر شدہ دستاویزات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
٭ یہ بات حکومت طئے کرے گی کہ جائیداد کا حقیقی مالک کون ہے۔
٭ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ جائیداد کے آپ ہی مالک ہیں۔
٭ قانون سازی کا مقصد عوام کو جائیدادوں سے محروم کردینا ہے۔
نوٹ : اس ضمن میں ذیل میں دی گئی ہیلپ لائن پر مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
Helpline : 040-23535273 – 990 88500 90
اندھیر نگری میں اندھے قانون پاس ہونے لگے ہیں۔ موجودہ حکومت جو بھی چاہے کرسکتی ہے اور کربھی رہی ہے ۔ آبادی کے ایک بڑے حصہ کو دھارمک رنگ میں رنگ کر اور مذہبی جنون میں مبتلا کرکے ووٹ حاصل کئے گئے اور اسی Mandate کے بل بوتے پر خلافِ دستور اور خلافِ انسانیت قوانین پاس کئے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی ایک طرح سے لاچار اور بے بس ہوگئی ہے اور اس کے ججس دو مختلف نظریات کے حامل ہیں‘ یعنی زعفرانی اسکولس کے تربیت یافتہ ہیں۔ ایسے ججس کے سامنے اگر کسی قانون یا حکومتی اقدام کے دستوری جواز کو چیلنج کیا جائے تو نتیجہ جو برآمد ہوگا آپ کے سامنے ہے۔ گو کہ عدالت ِ عظمٰی دو دھڑوں میں بانٹ دی گئی ہے پھر بھی ججس کا ایک گروپ ایسا ہے جودستور و جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے جس کا ثبوت الکٹورل بانڈ پر کئے گئے فیصلہ سے ملتا ہے۔ لیکن مشکل یہاں یہ ہے کہ جو مقدمات حکومت کے غیر دستوری اور غیر جمہوری اقدام کے خلاف دائر کئے جاتے ہیں‘ ان کو صرف ان ہی ججوں کے اجلاس پر پیش کیا جاتا ہے جو زعفرانی حکومت اور اس کے نظریات سے اتفاق رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ایک جج ماسٹر آف روسٹر ہوتا ہے جو مقدمات مختلف ججس کے اجلاس کو بھیجتا ہے۔ یہ سوئے اتفاق ہے یا سازش کہ جو فی الوقت ماسٹر آف روسٹر ہیں ان کا نام جسٹس بیلاتریویدی ہے۔ یہ محترمہ اپنی مرضی سے جس جج کے اجلاس پر چاہیں مقدمات پیش ہونے کا حکم دے سکتی ہیں۔ ہمیں یہ بات لکھتے ہوئے ذرا بھی خوف نہیں کہ محترمہ مذکور اپنی مرضی سے اپنے ہم خیال ججس کے اجلاس پر مقدمات کو پیش کرتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے قوانین ‘ اقدامات‘ احکامات میں مداخلت نہ کی جائے اور ان کو موافق دستور اور قانون قراردیا جائے ۔ قبل ازیں ماسٹر آف روسٹر چیف جسٹس آف انڈیا ہوا کرتے تھے اور اب یہ اختیارات ان کے پاس نہیں کہ کسی بھی دائر کئے ہوئے مقدمہ کی خود سماعت کریں یا کسی دوسرے اجلاس پر منتقل کریں۔
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں
اگر ہم شاعر ہوتے تو ملک کی عدلیہ کی عظمت کی پامالی پر ایک مرثیہ لکھتے۔
اس مضمون پر قبل ازیں زائد از ایک مرتبہ مضامین لکھے گئے اور مالکینِ جائیداد میں شعوری مہم چلائی گئی جو بے اثر ثابت ہوئی۔ لیکن چند حضرات نے خواہش کی ہے کہ اس مضمون پر دوبارہ روشنی ڈالی جائے کیوں کہ ہوائیں تیزی سے بدل رہی ہیں اور آثار و قرائن ایسے ہیں کہ 2029تک یہی صورت رہے گی اور یہ وہ سال ہوگا جب ملک کی ساری ریاستوں اور پارلیمان میں ایک ساتھ الیکشن ہوں گے اور پلان کے مطابق سارے ملک میں زعفرانی پرچم لہرائے گا ۔ دستور ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ منوسمرتی لے لے گی ۔ ملک کو ہندوراشٹر میں تبدیل کردیا جائے گا۔ اس وقت مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ سکھوں اور پسماندہ طبقات ‘ درج فہرست اور قبائلی لوگوں کے تمام حقوق چھین لئے جائیں گے اور ملک سے جمہوریت کی ارتھی اٹھائی جائے گی اور ایک ہندوسامراج کی داغ بیل ڈالی جائے گی۔
زیرِ تحریر مضمون میں لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ پر بحث کی جارہی ہے۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک قانون ہے جو سارے ملک میں لاگو ہوچکا ہے۔ اس قانون کی رو سے وہی شخص صاحبِ جائیداد کہلانے کا حقدار ہوگا جس کی ملکیت یا حقِ مالکانہ (TITLE)کو قانون کے تحت مقرر کی گئی اتھاریٹی تسلیم کرے گی۔ کوئی بھی شخص محض رجسٹر شدہ دستاویزات یا وراثت کی اساس پر جائیداد کا مالک تصور نہیں کیا جائے گا۔ گویا رجسٹریشن ایکٹ جو زائد از130 سال سے رائج العمل ہے ‘ بے معنی اور بے مطلب ہوکر رہ جائے گا اور کسی بھی رجسٹرشدہ دستاویز کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ اگر مقررکردہ اتھاریٹی حقِ ملکیت کو تسلیم نہ کرے تو اپیل کی گنجائش رہے گی پھر اس کے بعد ہائیکورٹ سے بذریعۂ رٹ رجوع ہوسکتے ہیں۔ گویا صاحبِ جائیداد ہوتے ہوئے بھی آپ کو اپنی جائیداد کا حقِ مالکانہ نہیں ملے گا۔
اس ضمن میں گوگل پر (Land Titling Act) ٹائپ کرکے پورے قانون کو پڑھا جاسکتا ہے۔
ہماری اور وکلاء برادری کا خیال ہے کہ اس قانون کو (Selectively Traget) کے لیے استعمال کیا جائے گا اور سب سے پہلے شکار ہندوستان کے مسلمان ہوں گے جن کی جائیدادوں پر آج کل بلڈوزر چل رہے ہیں لیکن اس قانون میں لاکھوں بلڈوزروں کی طاقت موجودہے جو مسلمانوں کو بے گھر‘ بے در اور بے نوا کردے گا۔
یہ ایک یقینی بات ہے کہ سب سے پہلے شکار وہ لوگ ہوں گے جن کی اپنے مکانوں‘ زمینات پر قبضہ کی اساس نوٹری دستاویزات ہیں۔ یہ ایک قانونی حقیقت ہے کہ نوٹری دستاویزمالکانہ حق عطا نہیں کرتا۔ قانون کی روشنی میں کیا نوٹری دستاویزی اساس ‘ کیا رجسٹر شدہ دستاویز کسی کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔ سب سے پہلے یہ بات کہ دستوری اساس پر یہ قانون ایک کھوٹا سکہ ہے کیوں کہ دستور نے زیرِ آرٹیکل (400-A) جائیداد رکھنے کا حق عطا کیا ہے اور کسی کو بھی بشمول حکومت یہ حق حاصل نہیں کہ کسی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم کرے۔ لیکن جب حصولِ انصاف کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں تو سوائے مایوسی کے کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
پھر بھی روشنی کی ایک کرن ہے جو آپ کو قانون کے تحت کی جانے والی کارروائی میں مدد بہم پہنچاسکتی ہے۔
اس ضمن میں مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یاد رکھئے جب سب دروازے بند ہوجائیں پھر بھی ایک راستہ رہ جاتا ہے۔
Helpline : 040-23535273- 9908850090
کسی بھی وقت استفسارات کئے جاسکتے ہیں۔
صرف وصیت کی اساس پر دیگر ورثاء کو
محروم نہیں کیا جاسکتا
سوال:- میرے والد صاحب کے نام پر شروع سے ایک مکان تھا۔ یہ مکان400 مربع گز پر سفال پوش تھا۔ اس مکان کو والد صاحب نے منہدم کرکے RCC کا ‘ مکان بنایا۔ پھر اس کے بعد میں نے روپیہ بھیج کر اس مکان کو G+4 کی منزل تک تعمیر کیا۔ میرے دیگر دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والد صاحب نے انتقال سے قبل سارے مکان کی وصیت میرے نام پر کردی اور اس کی رجسٹری بھی ہوگئی۔ بہنوں کی شادیاں ہوچکیں وہ اپنے گھروں کی ہوچکیں۔ بھائیوں کا بھی ذاتی مکان ہے ۔ میں اس مکان میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہوں۔ آٹھ کرایہ دار ہیں جن سے کرایہ وصول کرتا ہوں۔ نیچے چھ دوکانیں بھی ہیں۔
میرے بھائیوں اور بہنوں نے کبھی بھی جائیداد میں اپنے حق کا مطالبہ نہیں کیا کیوں کہ انہیں پتہ تھا کہ والد صاحب نے اس مکان کی وصیت میرے نام پر کی تھی۔
لیکن ایک بہن جن کی معاشی حالت کچھ بہتر نہیں ہے اس کے شوہر کے بھائی ایڈوکیٹ ہیں ‘ بہن اور ان کے ایڈوکیٹ دیور کی سازش سے دو بھائیوں اور دو بہنوں نے میرے خلاف تقسیم ترکہ کا دعویٰ کردیا اور مجھے عدالت سے سمن وصول ہوا ۔ دعویٰ میں ہر بہن نے 1/8 حصہ طلب کیا ہے۔ ہر بھائی نے 2/8 حصہ مانگا ہے۔ اور میرے حصہ میں2/8 کہا گیا ہے۔ دعویٰ میں اس وصیت کا کوئی ذکر نہیں جو رجسٹر شدہ ہے۔ اس ضمن میں آپ سے قانوی رائے طلب کی جارہی ہے کہ یہ مطالبات کس حد تک درست ہیں اور میرے حق میں کی گئی رجسٹر شدہ وصیت نامہ کی قانونی اہمیت کیا ہے۔ جواب کی اشاعت باعثِ تشکر ہوگی۔
X-Y-Z ۔ حیدرآباد
جواب:- بہنوں اور بھائیوں کا دعویٰ برحق ہے۔ مطالبات بالکل جائز ہیں۔ قانون اور شرع شریف کی روشنی میں آپ کے حق میں کی گئی رجسٹر شدہ وصیت بے وقعت ہے کیوں کہ وصیت وارث کے حق میں درست نہیں۔ اگر غیر وارث کے حق میں وصیت ہو تو اس کا اطلاق ایک تہائی کی حد تک ہی ہوسکتا ہے۔ دعویٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ دعویٰ میں کوئی قانونی نقص نہیں۔ دعویٰ میں ایک فتویٰ کا بھی ذکر ہے جو برحق ہے۔
آپ صرف وقت بچاسکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رہے کہ دعویٰ میں ایک ایسی بھی صورت ہوسکتی ہے کہ متروکہ جائیداد کا کرایہ عدالت میں جمع کروایاجاسکتا ہے۔
آپ کو رائے دی جاتی ہے کہ آپ تمام بھائی بہن آپس میں مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو سلجھالیں۔ اگر آپ کچھ کم زیادہ پر راضی ہوں تو وہ لوگ مقدمہ اٹھالیں گے۔ آپسی معاملات گھر ہی میں سلجھالئے جائیں تو بہتر ہوگا۔ آپ کے ترسیل کردہ کاغذات تلف کردیئے گئے ہیں۔ اگر والد صاحب وصیت کے بجائے یہ جائیداد آپ کے نام ہبہ سے ٹرانسفر کرتے تو یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔