
مولاناسید ومیض احمد ندوی
کرناٹک کے حالیہ انتخابات کے بعد فرقہ پرست حکمراں جماعت کے حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے اور اسے 2024ء کے عام انتخابات میں شکست کا خوف ستانے لگا ہے۔حزب اقتدار کی سرپرست اعلی آر ایس ایس نے بھی بی جے پی کو پھٹکار لگاتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ بی جے پی انتخابات میں کامیابی کے لیے صرف مودی کے چہرے پر انحصار نہیں کرسکتی۔ اب اسے مدوں کی بنیاد پر انتخابات لڑنا ہوگا ورنہ کانگریس کا سیلاب اسے عام انتخابات میں بہا لے جائے گا۔
چوں کہ عام انتخابات کا سامنا کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں ہے اس لیے وہ ملک بھر میں پھر سے ہندو مسلم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کے لیے فلم انڈسٹری کا بھر پور استعمال کیا جارہا ہے۔ ملک کا نام نہاد مین اسٹریم گودی میڈیا تو اس کا زرخرید غلام ہے ہی لیکن چوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہریلے مواد سے بھرپور فلمیں اکثریتی طبقہ کو مسلم دشمنی پر آمادہ کرنے میں زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں اس لیے آنے والے عام انتخابات کے لیے فرقہ وارانہ ماحول کو گرمانے فلموں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ مسلم منافرت پر مبنی فلمیں ریلیز کی جارہی ہیں۔ ’’کشمیر فائلز‘‘ اور ’’کیرالہ اسٹوری‘‘ کے بعد اب ایک نئی زہریلی فلم 72حوریں کا ٹیزر ریلیز کردیا گیا ہے اس فلم کی ایڈیٹننگ سنجے پورے سنگھ چوہاں نے کی ہے اور اس کے پروڈیوسر اشوک پنڈت نے ٹوئٹر پر ٹیزر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے ہماری فلم 72حوریں کی جھلک آپ کے سامنے پیش کرنے کے وعدے کے مطابق مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ پسند آیا ہوگا‘ اگر آپ 72 کنواریوں سے ملنے کے بجائے سفاکانہ موت مریں جیسا کہ دہشت گردوں کے سرپرستوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اپنی آنے والی فلم کی پہلی جھلک پیش کررہا ہوں جو 7?جولائی کو ریلیز ہونے والی ہے۔
جوں ہی سوشل میڈیا پر اس فلم کا ٹیز رریلیز کردی گئی سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا سلسلہ چھڑ چکا ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ایک ٹوئٹر صارف لکھتا ہے کہ ’’ہندوستان میں شروع ہونے والی نفرت اور اسلاموفوبیا بھارتی فلم صنعت کی ایک ضمنی پیداوار ہے‘‘۔ ایک اور صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’اسلاموفوبیا فلم انڈسٹری‘‘۔ایک اور نے لکھا ہے ’’ایک اور پروپیگنڈہ فلم‘‘مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوگا وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا‘۔ ایک صارف نے آہ بھرتے ہوئے لکھا ’’بھارت اسلاموفوبیا کا مرکز بن گیا‘‘۔ ایک صارف نے لکھا ہندو راج دوبارہ شروع ہورہا ہے۔
اسلام دشمنوں نے کوئی نیا کارنامہ نہیں انجام دیا وہی پرانی نفرتوں کی سوداگری ہے اور اسلام سے لوگوں کو متنفر کرنے کا پرانا دھندا ہے، کسی زمانہ میں ہندوستانی فلمیں حسن ِ معاشرت اور تہذیب و شائستگی اور نصیحت و عبرت کی آئینہ دار ہوتی تھیں لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ فلمسازوںکی ذہنیت تبدیل ہوتی گئی اب فلمسازوں کو محض پیسہ کمانے سے مطلب ہے بھلے ان کی فلموں سے انسانی سماج میں نفرت کی دیوار ہی کیوں نہ کھڑی ہوجائے، اب ایسی فلموں کو ہندوستان میں اقتدار تک رسائی کا سہل الحصول راستہ سمجھا جانے لگا ہے۔ ایسی فلموں کو ارباب اقتدار کی جانب سے نہ صرف کھلی چھوٹ ملتی ہے بلکہ انہیں ٹیکس فری بھی کردیا جاتا ہے۔ جس ملک میں دیوی دیوتاو?ں کی نازیبا پینٹنگ بنانے والوں کو مواخذہ کے کٹھہرے میں کھڑا کیا جاتا ہو وہاں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والی فلموں کے لیے کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماج کو بانٹنے والی فلمیں تیار کرنے والے در اصل ذہنی دیوالیہ پن کے شکار ہیں۔ وہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی اسلامی مقدسات کی توہین اور اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ 72حوریں جیسا نام رکھ کر وہ اسلام میں حوروں کے تصور کا تمسخر کرنا چاہتے ہیں نیز بعض احادیث میں راہِ خدا میں شہید ہونے والوں کے لیے 72حوروں کی جو خوشخبری دی گئی اسے مضحکہ خیز بنانا چاہتے ہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ سورہ رحمان کی آیت ’’حور مقصوات فی الخیام‘‘ کی طرف ان کا اشارہ ہو۔
اسی طرح حالیہ دنوں میں ایک اور فلم اجمیر 92 ریلیز ہونے جارہی ہے۔ اس کے ذریعہ ایک طرف سلطان الہند خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی شان میں گستاخی مقصود ہے دوسری جانب چوں کہ 92 محمد کے اعداد ہیں اس لیے نام پاک کو نشانہ بنانا پیش نظر ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسلام مخالف فلموں کا یہ مکروہ سلسلہ کب رکے گا اور کب تک ہماری عدالتیں اسلام مخالف فلموں کو اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اجازت دیتی رہیں گی؟۔ 72حوریں کا جو مختصر ٹیزر جاری کیا گیا ہے اس میں اسامہ بن لادن حافظ سعید اجمل قصاب اور دیگر افراد کی تصاویر دکھائی گئی ہے جبکہ پس پردہ آواز میں بتایا جارہا ہے کہ مذکورہ تمام افراد نے مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلائی ہے۔ فلم کا مقصد مسلمانوں کو دہشت گرد کرداروں کے طور پر دکھانا ہے۔ فلم میں یہ تا?ثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم نوجوان…..72حوروں کے حصول کے لیے دہشت گردانہ کارروائی انجام دیتے ہیں اس سے قبل ’’دی کیرالہ اسٹوری‘‘ ریلیز کی گئی تھی جس میں بے بنیاد دعوی کیا گیا تھا کہ کیرالہ سے 32ہزار نوجوان ہندو لڑکیوں کو مسلمان کر کے انہیں دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس طرح گزشتہ برس کے اختتام پر دی کشمیر فائلز کے نام سے ایک متنازعہ فلم ریلیز کی گئی تھی جس میں یہ تا?ثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ کشمیر میں مسلمان ہندو پنڈتوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ کشمیر فائلز اور دی کیرالہ اسٹوری پر دنیا بھر میں انڈین فلم انڈسٹری کو نشانہ تنقید بنایا گیا تھا ملک کی مختلف مسلم شخصیات کی جانب سے 72 حوریں اور اجمیر92 جیسی فلموں کی سخت مذمت کی جارہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے اجمیر92 کو سماج میں پھوٹ ڈالنے سے تعبیر کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہندو مسلم اتحاد کی علامت اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے حقیقی سلطان تھے ایک ہزار سال سے آپ اس ملک کی پہچان ہیں اور آپ کی شخصیت امن کی پیغامبر کے طور پر معروف ہے۔ ان کی توہین و تحقیر کرنے والے خود رسوا ہوں گے۔ مولانا نے کہا کہ موجودہ وقت میں سماج میں پھوٹ ڈالنے کے بہانے ڈھونڈے جارہے ہیں اور مجرمانہ واقعات کو مذہب سے وابستہ کرنے کے لیے فلموں اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جارہا ہے۔ جو یقیناً افسوس ناک اور ہماری متحدہ وراثت کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجمیر میں پیش آمدہ واقعہ کی جو شکایت کی جارہی ہے وہ سبھی سماج کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور گھناو?نا عمل ہے اس کے خلاف بلا لحاظ مذہب و ملت اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن سپاہ سماج بانٹ کر اس درد ناک واقعہ کی سنجیدگی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لیے سرکار سے میرا مطالبہ ہے ایسی فلم پر پابندی لگائی جائے اور جو لوگ سماج کو بانٹنے کی کوشش کررہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ آزادی اظہار رائے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور کسی بھی جمہوریت کی اصل طاقت ہے لیکن اس کی آڑ میں ملک کو توڑنے والے خیالات اور نظریات کو فروغ نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ ہمارے ملک کے لیے مفید ہے۔
اس قسم کی فلمیں عام طور پر آزادی اظہارِ رائے کے نام پر بنائی جاتی ہیں حالاں کہ ملکی عدالتوں کی جانب سے متعدد بار اظہارِ رائے کی آزادی کی حدیں مقرر کی ہیں اور وضاحت کی جاچکی ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کی قسمت پر معاشرے میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی بالخصوص جب دو مذہبی کمیونٹیوں کے درمیان تادیر پا ہوتے کا اندیشہ ہو۔ اس قسم کی اوچھی حرکت کے پس پردہ گودی میڈیا کا گھناو?نا کردار ہے وہ نفرتی بیانیہ کے سہارے آئے دن لو جہاد‘ لینڈ جہاد اور دھرم پریورتن جیسے ایشوز کو ہوا دے کر اپنی ٹی آر پی پر بھاری ہے۔ علاوہ ازیں حالیہ دنوں میں چوں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے والی فلموں کو دائیں بازو کے عناصر اور شدت پسند ہندوو?ں کے ذریعے بڑھ چڑھ کر سنیما ہالوں میں جاکر دیکھ رہے ہیں اسی کا نتیجے ہے بالی ووڈ کے سی گریڈ کے ہدایت کاروں اور اداکاروں کو فوری شہرت اور دولت کمانے کے آسان نسخہ ہاتھ لگا ہے اس لیے ایسی فلموں کو تواتر کے ساتھ ریلیز کیا جارہا ہے۔ ملک کے انصاف پسند اور سیکولر ذہنیت رکھنے والے باشندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کو بانٹنے والی اس قسم کی فلموں پر پابندی عائد کرنے کا حکومت سے مطالبہ کرے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰