مضامین

ابھی عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا

مثبت سوچ رکھنے والے کی مثال شہد کی اس مکھی کی جیسی ہے جو خوشبو کے پھولوں کی تلاش میں ہزاروں میل سفر کرے گی مگر ایک فرلانگ کی مسافت کی گندگی کے ڈھیر میں ہرگز نہیں بیٹھے گی جبکہ منفی سوچ رکھنے والے کی مثال اس مکھی کی سی ہے جو گندگی پر ہی بیٹھتی ہے۔ قریب کا پھول اس کو خراب اور دور کی نجاست اس کو لاجواب لگتی ہے۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786

مثبت سوچ رکھنے والے کی مثال شہد کی اس مکھی کی جیسی ہے جو خوشبو کے پھولوں کی تلاش میں ہزاروں میل سفر کرے گی مگر ایک فرلانگ کی مسافت کی گندگی کے ڈھیر میں ہرگز نہیں بیٹھے گی جبکہ منفی سوچ رکھنے والے کی مثال اس مکھی کی سی ہے جو گندگی پر ہی بیٹھتی ہے۔ قریب کا پھول اس کو خراب اور دور کی نجاست اس کو لاجواب لگتی ہے۔

آج ہماری ملت میں مثبت سوچ رکھنے والوں کی تعداد گھٹ رہی ہے جو کسی بھی حالت میں اچھی علامت نہیں قرار دی جاسکتی۔ ہماری ملت کی زندگی میں بے شمار مشکلات کے آنے کے باوجود ہماری فکر میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہم آج بھی ماضی کی داستانوں میں اپنے آپ کو گم کرلیتے ہیں اور حال کے چیالنجوں کا سامنا کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے۔

کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتاہے کہ ’’ انا کو فنا کرنے کے بعد ہی دانہ پھل کا روپ اختیار کرتاہے‘‘۔ اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہی قوم انسانی سماج میں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوسکتی ہے جس نے زندگی کے نشیب و فراز میں جینے کا سلیقہ سیکھاہو۔ اسی لئے کسی بزرگ نے کیا خوب ارشاد فرمایاہے کہ ’’ بڑا بننے سے پہلے اپنے بڑوں کو بڑا مانو‘ جو بڑوں کو چھوٹا سمجھتے ہیں وہ کبھی بڑے نہیں بن سکتے بلکہ بُرے بن جاتے ہیں۔‘‘ آج ہندوستان کے مسلمان اپنے تشخص کی تلاش میں ہیں۔

اگر وہ اپنے ملک کے عظیم قائدین کے بیش بہا کارناموں کو اپنے پیش نظر رکھتے ہیں تو انہیں بے شمار مسائل کا واضح حل صاف دکھائی دے گا۔ پچھلے دنوں ساری قوم نے ابوالکلام آزاد کی برسی کے موقع پر انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور تمام جلسے نشستاً گفتاً برخواستاً کی مصداق ختم ہوگئے۔ ماضی کی شخصیتوں کو اور ماضی کے واقعات کو کسی رسم کے طورپر یاد نہیں کیاجانا چاہئے بلکہ گزرے ہوئے کل کو بنیاد بناکر مستقبل کو روشن کرنا زندہ قوموں کی علامت ہے۔

آج ہندوستان کے مسلمانوں کو مشترکہ سماج میں ناصرف جینے بلکہ ترقی کی لامتناہی منزلوں کو پار کرناہوگا اور مولانا ابوالکلام آزاد کی فکر کو اپنی روزمرہ کی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔ ہندوستان مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے ایک بہت بڑا ملک ہے اور اسے ملک کی اقلیت کی بجائے ملک کی دوسرے بڑی اکثریت کے طورپر دیکھا جاناچاہئے۔ ہندوستان کے ھ سے ہندو اور م سے مسلمان دونوں کے باہمی اشتراک سے یہ قوم بنتی ہے اور ھ اور م جب آپس میں ملتے ہیں تو ’’ہم‘‘ کا لفظ ہمارے سامنے آتاہے۔ اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ ملک بھر میں بے پناہ فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے باوجود ناہندو بھائی مسلمان کا مخالف ہوا اور ناہی مسلمان بھائی کے دل میں ہندو بھائیوں کے خلاف کوئی براسی آئی ہوگی۔

مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر آنکھیں کھولنے والے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے فرقہ وارانہ اتحاد قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ اشتعال انگیز بیانات سے احتراز کیا حتیٰ کہ مسلم لیگ کے قائد جناح کے ہندو۔ مسلم اتحاد کے خلاف نامناسب ریمارکس پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو۔ مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں مولانا کے احساسات اور خیالات کی معنویت کی افادیت آج بھی ناصرف پوری طرح قائم وباقی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ اہم اور اشد ضروری ہوگئی ہے۔

دورِ حاضر میں اختلاف وانتشار کا مصنوعی ماحول دراصل دورِ غلامی کی دین ہے۔ حیدرآباد کی ایک مندر کے پاس گائے کا گوشت کاٹ کر ڈالا گیا اور شہر فرخندہ کی ایک مسجد کے سامنے کتے کے گوشت کا ٹکڑا ڈالاگیا۔ ناتو ہندو بپھرا اور ناہی مسلمان مشتعل ہوئے۔ ملک کے عوام کا یہ شعور ثابت کرتاہے کہ انہیں امن‘ شانتی‘ بھائی چارہ اور انسانیت کے راستے سے کوئی ہٹانہیں سکتا۔ جب ملک تقسیم ہوا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے دلی کی جامع مسجد میں ایک ایسی تقریر کی تھی جس نے ان مسلمانوں کی کایا پلٹ دی جنہوں نے پاکستان کے ملنے کے باوجود ہندوستان کو اپنے جسم اور ایمان کا حصہ بنالیا تھا۔

مولانا نے فرمایا تھا ’’ یہ دیکھو !جامع مسجد کے بلند مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیاہے؟۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیاتھا اور آج تم ہوکہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے حالانکہ دلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے‘‘۔ مولانا نے مزید فرمایا تھا ’’عزیزو: اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش وخروش بیجا تھا اسی طرح آج تمہارا یہ خوف وہراس بھی بیجاہے۔

مسلمان اور بزدلی یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ چند انسانی چہروں کے غائب ازنظر ہوجانے سے ڈرو نہیں۔ انہوں نے تمہیں جانے کے لئے اکٹھا کیاتھا آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیاہے تو یہ عیب کی بات نہیں۔ اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو اسے خدا کی جلوہ گاہ بنائو‘‘۔ بہرحال مولانا ابوالکلام آزاد نے اندھیروں کو ختم کرنے کیلئے اجالوں کی جو تحریک چلائی ہے اس پر ہندوستان کے نوجوانوں کو چلنا ہوگا یعنی

اپنی تحریک کے شعلوں کو بجھا مت دینا
نوجوانوں کی امانت ہے یہ گنوا مت دینا
صبح ہونے میں بہت دیر نہیں ہے لیکن
ابھی عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا