حکومت‘ کشمیر میں مزاروں کا کنٹرول کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟

ریاض مسرور(سری نگر)
اگر آپ کسی مزار یا صوفی آستانے پر گئے ہوں تو حاضری کے وقت ہی کوئی مجاور یا متولی آپ کے ساتھ ہو لیتا ہے، وہ آپ کے لیے دعائیں کرتا ہے اور بعد میں ’تبرک‘ کی ایک مْٹھی آپ کو تھما کر آپ سے ہدیے کے طور پر نقد رقم کی توقع کرتا ہے۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور بعض وسط ایشیائی مسلم ممالک میں مزاروں پر یہ روایت صدیوں سے جاری ہے، لیکن کشمیر کے مقامی وقف بورڈ نے اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلا کر مجاوروں کو عوامی نذر و نیاز اکھٹی کرنے سے روک دیا ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ عقیدت مندوں اور صاحب ِ مزار کسی صوفی بزرگ کے بیچ مجاوروں نے دیواریں کھڑی کر دی ہیں اور وہ لوگوں سے جبراً پیسہ اینٹھتے ہیں، لیکن مجاوروں کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کے ذریعے ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ سرینگر کے قدیم ترین مزار ’خانقاہِ معلیٰ‘ کے 82 سالہ مجاور محمد یٰسین زہرہ کہتے ہیں کہ ’چند لوگوں کی غلطی کو بنیاد بنا کر سینکڑوں افراد کی روزی روٹی کیوں چھینی گئی۔ ہم یہاں کئی نسلوں سے ہیں، لوگ عقیدت سے ہماری دعائیں لیتے ہیں اور اپنی مرضی سے ہمیں کچھ پیسہ دیتے ہیں، یہ نئی مہم لوگوں کی عقیدت اور صدیوں کی روایت کے بیچ میں اچانک کیسے حائل ہو گئی۔‘ ایران سے 14ویں صدی کے آغاز میں کشمیر آ کر یہاں اسلام کی تبلیغ کرنے والے صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانی سے منسوب اس خانقاہ سے وابستہ درجنوں مجاور وقف بورڈ کی مہم کی مخالفت کرتے ہیں۔واضح رہے کہ اگست میں وقف بورڈ کی جانب سے اس حکمنامے کے اجرا کے فوراً بعد حکام نے پولیس کی مدد سے درجنوں مزاروں پر نصب چندے اور نذرانے جمع کرنے کی مخصوص پیٹیاں (باکس) ضبط کر لی تھیں۔ تاریخی حوالوں کے مطابق میر سید علی ہمدانی کو کشمیر میں اسلام پھیلانے والے مبلغ کے طور پر جانا جاتا ہے کیوں کہ ان کی یہاں آمد سے قبل یہاں مذہب اسلام اپنا وجود نہیں رکھتا تھا۔ اْنھوں نے اور بعد میں ان کے بیٹے میر محمد ہمدانی نے 14ویں اور 15 ویں صدی کے دوران کشمیر میں سینکڑوں ایکڑ زمینیں خرید کر مسلمان اداروں کے لیے وقف کر دی تھیں،لیکن وقف کی باقاعدہ تنظیم سنہ 1940 میں ’مسلم اوقاف ٹرسٹ‘ میں اس وقت کے مقبول رہنما شیخ محمد عبداللہ نے کی تھی۔ وہ سنہ 1982 میں اپنے انتقال تک ٹرسٹ کے چیئرمین رہے۔ تاہم شیخ عبداللہ کے حریف مفتی سید نے سنہ 2003 میں اقتدار حاصل کیا تو انہوں نے اس کا نام تبدیل کر کے ’جموں و کشمیر وقف بورڈ‘ رکھا اور وقف جائیداد کا حساب کرنے اور اس کے ذمہ داران کو جوابدہ بنانے کا اعلان کیا۔سرکاری اعداد و شمار کے باوجود نذر و نیاز کے ذریعے ہونے والی سالانہ 60 کروڑ روپے کی آمدنی اور اربوں روپے مالیت کے اثاثوں کے باوجود وقف بورڈ کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ سنہ 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کی خودمختاری کو ختم کر کے یہاں پر براہ راست وفاقی قوانین نافذ کیے تو وقف بورڈ بھی ’سینٹرل وقف ایکٹ‘ کے زمرے میں لایا گیا۔ کشمیر میں بی جے پی کی سینئر خاتون رہنما ڈاکٹر درخشاں اندرابی کو بورڈ کا وائس چیئر پرسن بنایا گیا جو صرف لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔ ڈاکٹر درخشاں اندرابی کہتی ہیں کہ مزاروں سے نہ صرف لوگوں کا استحصال ہو رہا تھا بلکہ سبھی مزار روایتی سیاستدانوں کے لیے اقربا پروری اور ووٹ بینک کا آسان ذریعہ بن گئے تھے۔لوگوں سے جو پیسہ لیا گیا اْس کا کوئی حساب نہیں۔ اور پھر مزاروں کی دیکھ بھال نہیں ہوئی، عوام کے لیے سہولیات نہیں، عمارتوں کی کوئی تجدید نہیں، ہم اس سب میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔“ بورڈ کی زیرنگرانی فی الوقت 68 مزار، 65 مساجد، 2000 کمرشل عمارتیں، 900 ایکڑ جنگلاتی زمین اور 300 ایکڑ سے زیادہ میوہ جات کے باغات ہیں۔ اس کے علاوہ بیسیوں اسکول اور تین نرسنگ کالج بھی ہیں جبکہ ایک معروف یونیورسٹی بھی وقف کی ہی زمین پر ہے۔
مجاوروں کے ذریعے مزاروں پر حاضری دینے والے عقیدت مندوں کی تنگ دستی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے لیکن لوگوں نے اس کو مزار پر حاضری دینے کے لیے چھوٹے سے ’ٹیکس‘ کی صورت میں قبول کر لیا تھا۔ ہر مزار پر دو الگ الگ پیٹیاں ہوتی تھیں، ایک میں پیسہ ڈالنے پر وقف بورڈ کے اہلکار باقاعدہ رسید دیتے تھے اور دوسری میں مجاورں کے لیے نذرانے کے طور پر پیسہ ڈالا جاتا تھا جس کی کوئی رسید نہیں ہوتی تھی، لیکن یہ عمل صدیوں سے جاری تھا اور یہ مجاور نسل در نسل اسی کمائی سے اپنے گھر چلاتے تھے۔ تاریخ دان اور سماجی کارکن ظریف احمد ظریف کہتے ہیں: ’حکومت کی یہ مہم جبری ہے۔ پہلے ایک سروے کیا جاتا کہ مجاوروں میں کون کون اسی عمل سے روزگار کماتا ہے۔ اگر کسی کی کمائی محض اوپری ہے، اس کو بیدخل کر دیتے، جو اسی نذرانے پر گزارہ کرتے ہیں، انھیں وقف کی طرف سے ماہانہ تنخواہ یا وظیفہ دیا جاتا اور پھر سماجی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ مشاورت کی جاتی کہ کیسے مہم شروع کرنی ہے۔ یہ تو غنڈہ گردی ہے۔‘ اْنھوں نے کہا کہ ’اگر حکومت واقعی مذہب اور سیاست کو الگ کرنا چاہتی ہے تو مندروں سے بھی اُن پروہتوں کو ہٹا دے جو مندر جانے والے عقیدت مندوں سے پیسہ لے کر پرساد پکڑا دیتے ہیں۔‘
تاہم وقف بورڈ کی سربراہ ڈاکٹر درخشاں کہتی ہیں کہ اْن کی تنظیمی وابستگی کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ ’ہم اس سے بالکل مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ میں کہتی ہوں سیاست دانوں کی مداخلت نہ ہو۔ ہم تو کشمیر کی صوفی روایات اور روحانی تاریخ کی ان علامتوں کو سیاسی استحصال سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’اب لوگ کیا باتیں کرتے ہیں مجھے اس سے مسئلہ نہیں، میں کسی تنخواہ کے بغیر یہ کام کرتی ہوں اور چا
ہتی ہوں کہ مزار پر ایک ولی اور اس کے ساتھ عقیدہ رکھنے والے زائر کے بیچ کوئی تیسرا شخص کھڑا نہ رہے۔‘
کیا واقعی مزار ’سیاسی ہتھیار‘ تھے؟
سنہ 1950 کے بعد جب شیخ محمد عبداللہ نے ہندوستان سے علیحدگی کی تحریک چلائی تو اْنھوں نے مسلم اوقاف ٹرسٹ کے تحت مختلف مزاروں خاص طور پر سرینگر کے حضرت بل میں واقع مسجد نبوی کی طرز پر تعمیر ایک یادگاری آستانے کو اپنا سیاسی مرکز بنایا۔ پھر دہائیوں تک شیخ عبداللہ یا اْن کی پارٹی نیشنل کانفرنس کے دوسرے رہنما مزاروں پر ہی لوگوں سے خطاب کرتے تھے۔اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت کشمیر کی روایتی سیاسی قیادت کو مزاروں یا آستانوں سے دور رکھنا چاہتی ہے۔معروف مؤرخ اور قانون دان پروفیسر شیخ شوکت حْسین کہتے ہیں کہ مسلم اوقاف ٹرسٹ کو بے شک شیخ محمد عبداللہ نے دہائیوں تک سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن 2003 میں مفتی سید نے نیا وقف قانون بنا کر اور ٹرسٹ کو سرکاری بورڈ میں تبدیل کر کے اس پر حکومتی کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ ’اب یہ بیانیہ ہی غیرمتعلق ہو گیا ہے کہ مذہبی مقامات کا سیاسی استعمال ہوتا تھا کیوں کہ جو لوگ ہندوستان پر حکومت کرتے ہیں وہ مذہبی مقامات کا استعمال کرتے ہوئے ہی اقتدار میں آئے ہیں۔‘