شانِ رسالت میں گستاخی ۔ملت اسلامیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ملک میں ان دنوں دنیا کی سب سے عظیم ہستی ،نبی کریم کی شان میں گستاخی کرنا فرقہ پرستوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی واقعہ کو بنیاد بناکر ذاتِ رسالت مآب کو نشانہ بنانا ہندوتوا وادیوںکی پالیسی بن گئی ہے۔ دو ماہ پہلے بی جے پی سے خارج لیڈر نپور شرما نے ایک ٹی وی پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے پیغمبر اسلام کے متعلق انتہائی دلآزار باتیں کہی تھیں اور اب حیدرآباد میں بی جے پی کے رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے اپنے پاگل پن کا ثبوت دیتے ہوئے نبی اکرم کی بے داغ شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے وہ زبان استعمال کی ہے جسے دوہرانا بھی انسانیت کو شرمسار کردے گا۔متنازعہ بیانات دینے میں شہرت رکھنے والے راجہ سنگھ کو بےہودہ جملے کہتے ہوئے اس کا بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ ایک عوامی نمائندہ ہیں اور انہوں نے بحیثیت رکن اسمبلی اس بات کا حلف لیا ہے کہ وہ ملک کے دستور اور قانون کے مطابق اپنے فرائضِ منصبی ادا کریں گے۔ ملک کا دستور اور قانون کسی کو بھی چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ملک کی فرقہ وارانہ فضاءکو مکدّر کرنے کی مذموم کوشش کرے۔ راجہ سنگھ نے حضور اکرم کی شان میں گستاخی کرکے جہاں کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، وہیں پورے ملک اور خاص طور پر ریاستِ تلنگانہ میں موجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو زہر آلود کرنے کی گھناو¿نی حرکت کی ہے۔ شہر حیدرآباد کے حلقہ اسمبلی گوشہ محل سے منتخب ہونے والے راجہ سنگھ نے ایک گستاخانہ ویڈیو تیار کیا ، جس میں واضح طور پر اس نے اہانت رسول کا ارتکاب کرتے ہوئے وہ زہر افشانی کی کہ اس کا تصور کسی بھی مہذب سماج میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس ویڈیو کے وائرل ہو تے ہی حیدرآباد کے ہزاروں غیورنوجوان 23 اگست کی صبح کی اولین ساعتوں میں سڑکوں پر نکل آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر سراپا احتجاج بن گیا۔ مسلمانوں کی اس دینی حمیت کو دیکھتے ہوئے حیدرآباد پولیس نے راجہ سنگھ کو گرفتار کرلیا ، لیکن جن دفعات کے تحت گرفتاری کی یہ ساری کاروائی پولیس نے کی تھی اس میں سقم کی وجہ سے گرفتاری کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ملعون راجہ سنگھ ضمانت پر رہا ہوگیا۔ اس سارے ہنگامے میں پولیس کی اس جلدبازی پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔کسی ملزم کوکو ن سی دفعات کے تحت گرفتار کرنا چاہیے، اس کا علم اگر پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی نہ ہو تو شہر میں امن و ضبط کو کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ راجہ سنگھ نے جس بیہودگی کا ثبوت دیتے ہوئے انتہائی گٹھیا ویڈیو بناکر جس اشتعال انگیزی کامظاہرہ کیا، اس پر تو اسے ایسی قانونی دفعات کے تحت گرفتار کیا جاتا کہ معزز جج صاحبان بھی اس کی ضمانت منظور نہ کرتے اور پھر کیس اس قدر مضبوط بنایا جاتا کہ عمر بھر جیل کی زندگی اس کا مقدر ہو تی۔ حیرت اور صدمہ کی بات ہے کہ کھلی شرانگیزی کے باوجود وہ آج آزاد گھوم رہا ہے۔ دنیا کو بیوقوف بنانے کے لیے بی جے پی نے ملعون راجہ سنگھ کو اس کی اس حرکت پر اپنی پارٹی سے معطل کر دیا ہے اور اس کے بیان سے اپنے آپ کوبے تعلق کرلیا ہے۔ گزشتہ دنوں بی جے پی کی ترجمان نپور شرما اور نوین جندل نے بھی یہی حرکت کی تھی تو بی جے پی نے ایک کو پارٹی سے معطل اور دوسرے کو خارج کردیا تھا، لیکن آج تک نپور شرما اور نوین کمارجندل کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ ان دونوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوتی تو راجہ سنگھ جیسے لوگ اس قسم کی گھٹیا حرکتیں کرنے کے بارے میں ہزار بار سوچتے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوتا جا رہا ہے۔ جسے سب دیکھ رہے ہیں۔
شانِ رسالت میں گستاخی کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کے پس پردہ فرقہ پرست قوتوں کے کیا عزائم ہیں اس کو سمجھنے اور اس کا دندان شکن جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اس شرانگیزی کے اصل محرکات کی تہہ تک پہنچے بغیر اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ توہین رسالت کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے بدبختانہ واقعات اتفاقی حادثات نہیں ہیں، اس کا ادراک ساری ملت اسلامیہ کو ہونا چاہیے۔ اس ساری اشتعال انگیزی کا صرف ایک مقصد ہے کہ توہین رسالت کرکے مسلمانوں کے دل مجروح کئے جائیں اور مذہب کے نام پر ہندوستانی سماج کو تقسیم کرکے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی جائے ۔ یہی ایک ایجنڈے کو سامنے رکھ کر سنگھ پریوار اپنے پروگرام کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ بی جے پی کو اندازہ ہو گیا ہے کہ 2024کا الیکشن ملک میں مذہبی منافرت کو پھیلا کر اور فرقہ واریت کے شعلے بھڑکا کر ہی جیتا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اس ملک میں مسلمان چودہ فیصد ہیں۔ یہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ ملک کی آزادی اور پھر آزادی کے بعد ملک کی تعمیر میں ان کا رول نا قابل فراموش رہا ہے۔ ان ساری تاریخی حقیقتوں کے باوجود مسلمانوں کو کسی نہ کسی انداز میں ذہنی یا جسمانی تکلیف دینا موجودہ مرکزی حکومت کا شیوہ بن گیا ہے۔ نپور شرما ہو یا نوین کمار جندل یا پھر راجہ سنگھ ، یہ وہ شرپسند عناصر ہیں جنہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بجائے حکومت انہیں ہر سطح پر تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ اسی لیے ان کی ہمتیں بڑھ رہی ہیں۔اسی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وقفے وقفے سے شانِ رسالت میں گستاخی کے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں ہورہے ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں ایک طرف غم و غصہ کی زبردست لہر پیدا ہورہی ہے اور دوسری طرف فرقہ پرست قوتیں اس کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ باور کرارہی ہیںکہ تمہارے رسول کی اہانت بھی کی جائے تو ہمارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ چناچہ ذاتِ رسالت مآب کے ساتھ آپ کی ازواجِ مطہرات ؓ کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملعون راجہ سنگھ نے آپ صلعم کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ کے متعلق بھی بے بنیاد اور بے ہودہ فقرے اپنے مذکورہ ویڈیو میں کَسے ہیں۔ اس شرمناک حرکت کے خلاف بی جے پی کی مہیلا ونگ (شعبہ خواتین ) کو سب سے پہلے راجہ سنگھ کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے تھا ۔ اس لیے کہ ہندوستان میں عورت کے تقدس اور احترام کے تعلق سے بڑے دعوے کئے جا تے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم نریندرمودی نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے عورتوں کی عظمت کے گُن گائے ہیں۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ دنیا کی پاک ترین اور مقدس ترین خواتین ہیں، ان کی کردار کشی کرنا خود عورتوں کی توہین ہے، لیکن جو پارٹی عورتوں کے قاتلوں اور زانیوں کو پناہ دیتی ہے، وہ عورت کی عزت و احترام کو کیا جانے؟ کسی کو پارٹی سے معطل کرنایا خارج کردینا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مسئلہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ان خاطیوں کو ایسی سزا دی جائے کہ دوبارہ کوئی ایسی ہمت نہ کر سکے۔ ایک جمہوری اور تہذیب یافتہ سماج میں یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ کسی بھی مذہب کی قابل احترام شخصیتوں کے بارے میں غلط انداز میں لب کشائی کر تے ہوئے ان کی توہین کی جائے۔ اگر یہ سلسلہ چل پڑے گاتو پھر کسی بھی مذہبی شخصیت کا تقدس باقی نہیں رہے گا۔ سماج کے شرپسند گروہ ہر مذہبی شخصیت کی کردار کشی پر اتر آئیں گے۔ نپور شرما ہوں کہ راجہ سنگھ یہ جان لیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا کوئی ایسا لائسنس ان کو نہیں مل گیا کہ وہ جوچاہیں بکتے چلے جائیں۔ ان کو اپنی آزادی جتنی عزیز ہے اتنی ہی آزادی ملک کے ہر شہری کو حاصل ہے۔ اس لئے سماجی زندگی کا تقاضا ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات کا پاس و لحاظ رکھا جائے ورنہ سماج میں جنگل راج ہوجائے گا۔
تلنگانہ حکومت جو اپنے آپ کو ایک سیکولر اور اقلیت دوست حکومت ہونے کا دعویٰ کر تی ہے اب اس کی ذ مہ داری ہے کہ وہ بی جے پی کے ناپاک عزائم کو قانون کے آہنی پنجہ سے کچل دے۔ راجہ سنگھ کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرتے ہوئے اس کی ضمانت کو منسوخ کرنے کی عدالت سے درخواست کرے اور اسے پھر سے اُن دفعات کے تحت گرفتار کیا جائے جس میں آسانی کے ساتھ اس کی ضمانت نہ ہوسکے۔ اس ملعون نے جہاں ساری دنیا کی محترم ہستی کے خلاف گستاخانہ کلمات ادا کئے ہیں وہیں ریاست تلنگانہ میں صدیوں سے پائی جانے والی مذہبی رواداری کو بھی ختم کرنے کی دانستہ حرکت کی ہے۔ خاص طور پرعلیحدہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد شہر حیدرآباد میں جو امن وامان کی فضاءپائی جا رہی ہے اسے بگاڑنے کی کوشش لگاتار فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے ہو رہی ہے۔ کبھی نظام دکن کی طرزِ حکمرانی کوبدنام کرنے کی کوشش کی جا تی ہے اور کبھی پبلک سروس کمیشن کی جانب سے اردو زبان میں امتحان لکھنے کی سہولت کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے۔ راجہ سنگھ نے جس اشتعال انگیزی کا بد ترین مظاہرہ کیا ہے اب یہ سلسلہ بڑھتا ہی جائے گا۔ 17 ستمبر کو ہر سال پولیس ایکشن کی یاد منائی جاتی ہے۔ بی جے پی کا برسوں سے مطالبہ ہے کہ تلنگانہ حکومت اس دن کو سرکاری طور پرمنائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دن آزادی کاہے۔ اگر 17 ستمبر آزادی کا دن ہے تو پھر گزشتہ پچھتر سال سے 15 اگست کو جشن آزادی کیوں منایا جا تا ہے؟اس سال تو بڑے دھوم دھام سے ہندوستان کی آزادی کا امرت مہا اتسو منایا گیا اور ہر گھر پر ترنگا لہرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ٹی آر یس حکومت کو فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو ناکام کرنے کے لیے اپنے سیاسی عزم کا ثبوت دینا ہوگا۔ راجہ سنگھ کی گرفتاری کے صرف چند گھنٹوں بعدضمانت پررہائی سے ریاستی پولیس شَک کے دائرے میں آجاتی ہے۔ اس سے ٹی آر ایس حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ راجہ سنگھ نے اپنی دریدہ دہنی کے ذریعہ تلنگانہ حکومت کو چیلنج کر دیا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت اور اس کے سربراہ اس سنگین اور حساس مسئلہ کو ایک عام مسئلہ سمجھ کر نظرانداز کردیں گے اور مسلمانوں سے صرف زبانی ہمدردی جتائیں گے تو اس سے بی جے پی سیاسی فائدہ اٹھائے گی اور ٹی آریس کا نقصان ہوگا۔ اس لیے یہ امید کی جا تی ہے کہ تلنگانہ حکومت کے چیف منسٹر کے۔ چندر شیکھر راو¿ جو خود ایک گھاگ سیاستدان ہیں ،راجہ سنگھ کو اس کے کرتوتوں کی سزا دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے تاکہ تلنگانہ میں امن و امان اور بھائی چارہ کی فضاءقائم رہے۔ یہ سارا ڈرامہ اسی لیے کھیلا جا رہا ہے کہ آنے والے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار آئے۔ راجہ سنگھ ، صرف ایک مہرہ ہے۔ اس کے پیچھے پوری بی جے پی اور اس کے حواری ہیں۔ اس حقیقت کو عام شہریوں سے زیادہ ریاست کے چیف منسٹر جانتے ہیں۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ تلنگانہ حکومت راجہ سنگھ کو کوئی راحت نہ دے۔ اس نے جو جرمِ عظیم کیا ہے وہ ناقابل ِ معافی ہے۔ راجہ سنگھ کی گرفتاری کے فوری بعد ضمانت پر رہائی سے مسلمانوں کے جذبات اور مجروح ہو گئے ہیں۔ جس وقت یہ مضمون لکھا جا رہا ہے سارے حیدرآباد میں ایک بے چینی اور اضطراب کا ماحول ہے۔ نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے آخر مسلمان کب تک صبر کریں؟ دشمنانانِ اسلام اپنی گھناو¿نی حرکتیں بڑھاتے جارہے ہیں اور مختلف گوشوں سے مسلمانوں کو ہی صبر کی تلقین کی جارہی ہے۔
بہرحال پولیس نے مسلم نوجوانوں کے زبردست احتجاج کے بعد آج راجہ سنگھ کو دوبارہ گرفتار کرلیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس پر پی ڈی ایکٹ بھی لگادیا گیا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت یہ کام پہلے ہی کردیتی تو حالات اس قدر سنگین نہیں ہوتے۔٭٭٭