
سلیم احمد(ایم۔اے۔ایم فل عثمانیہ)
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں تین ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی اور ایک ریاست میں کانگریس کی کامیابی پر دونوں قومی سیاسی جماعتوں کے اگلے پارلیمانی چناؤ جو چار ماہ کے عرصہ میں منعقد شدنی ہیں۔ انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں کی جانب سے کانگریس پارٹی کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس کے صدرملیکارجن کھرگے کی جانب سے 6دسمبر کو طلب کردہ اجلاس میں اہم سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نتیش کمار ‘ ممتا بنرجی‘ اکھلیش یادو کے علاوہ اسٹالن نے شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کانگریس کویہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مذکورہ اسمبلی انتخابات میں انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ساتھ اسمبلی کی نشستوں پر مفاہمت کو ترجیح دیتی تو صورتحال مختلف ہوتی ۔
ملک کی پانچ ریاستوں‘ تلنگانہ ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ اور میزورم کے انتخابی نتائج سے جہاں بی جے پی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں دوسری جانب کانگریس کی صورتحال مختلف ہے۔ ایک لحاظ سے انڈیا اتحاد میں شامل اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے دمریان اس کا سیاسی معیار گھٹ جانے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
ایک طرف کانگریس کو تلنگانہ میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی وہیں دوسری طرف اس کو راجستھان ‘چھتیس گڑھ ‘ جیسی ریاستوں سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے یہ کہ تلنگانہ ریاست میں بی جے پی کے آٹھ اراکین اسمبلی منتخب ہوکر آئے جو مستقبل میں کانگریس کے لئے خطرہ کی گھنٹی کہی جاسکتی ہے۔
پانچ ریاستوں کے انتخابات کی ایک خاص بات یہ رہی کہ مودی نے جس طرح سابق میں کرناٹک اپنے نام پر الیکشن لڑا تھا اور ان کے نام کا سحر عوام میں ابھی بھی باقی ہے یا نہیں ایک تجربہ کے طورپر عوام کے سامنے اپنے چہرہ کو پیش کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی اور کچھ حد تک مودی اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کی جانب سے اگلے پارلیمانی انتخابات کا ایک ٹرائل تھا جو آگے چل کر یہ طے کرنا تھا کہ ان کا عوام میں کس حد تک سحر باقی ہے اور وہ دوبارہ پارلیمانی انتخابات میں اپنے نام پر کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ بی جے پی نے کسی بھی ریاست کے چیف منسٹر کے نام کا اعلان نہیں کیا بلکہ وہ اپنے نام پر انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے حاصل ہونے والی کامیابی کو اپنے نام کرنا چاہتے تھے۔
تلنگانہ میں بھی چیف منسٹر کا نام کانگریس کی جانب سے طے نہیں کیا گیا تھا لیکن اس بات کے قوی امکانات ظاہر کئے جارہے تھے کہ ریونت ریڈی ہی کانگریس کی کامیابی کی صورتمیں چیف منسٹر ہوں گے۔ جبکہ اس بات سے کانگریس کے سینئر رہنماؤں کو کافی اختلاف تھا لیکن کانگریس اعلیٰ کمان کی جانب سے بالآخر ریونت ریڈی کو ہی چیف منسٹر نامزد کرتے ہوئے ضابطہ کی کارروائی کی تکمیل کی جو نو منتخبہ اراکین اسمبلی کی رائے کے ذریعہ طئے کیا گیا کہ اکثریت کی رائے ریونت ریڈی کے حق میں پائی جاتی ہے۔ جبکہ کانگریس کے سرکردہ اعلیٰ قائدین جن میں قابل ذکر ملیکارجن کھرگے‘ سونیا گاندھی‘ راہول گاندھی کے علاوہ پرینکا گاندھی اورانچارج تلنگانہ مانک راؤ ٹھاکرے نے ریونت ریڈی کی حمایت کی۔
ریونت ریڈی پر بطور چیف منسٹر تلنگانہ بہتر نظم و نسق کی فراہمی اور کانگریس کی جانب سے دی گئی چھ اسکیموں کی ضمانت پر عمل آوری ایک سخت اور کٹھن امتحان ثابت ہوں گی۔ ان چھ اسکیمات میں تلنگانہ کی عوام کو پانچ سو روپیوں میں گیاس کی فراہمی‘ خواتین کو روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسوں میں مفت سفر کی سہولت‘ دو سو یونٹ مفت بجلی‘ مہالکشمی خواتین کیلئے2500 روپے ‘ ریتو بھروسہ اسکیم پندرہ ہزار فی ایکر ‘ بارہ ہار زرعی مزدوروں کیلئے ۔ اندرماں ہاؤزنگ اسکیم پانچ لاکھ روپے کی امداد۔ یووا وکاس اسکیم کے تحت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے پانچ لاکھ روپیوں کی طالب علموں کو امداد ۔ بزرگ شہریوں ‘ بیواؤں ‘ تاڑی تاسندوں کے لئے چار ہزار روپے امداد کے علاوہ دس لاکھ روپے راجیو گاندھی آروگیہ اسکیم شامل ہیں۔ مذکورہ اسکیموں پر عمل آوری ریونت ریڈی کے لئے بڑا سخت امتحان ثابت ہوگا کیوں کہ ریاست میں اپوزیشن کی حیثیت سے انتہائی قابل اور تجربہ کار سیاستدان کے چندرشیکھر راؤ کے علاوہ ہریش راؤ‘ کے تارک راما راؤ کے علاوہ مجلس کے سات اراکین شامل ہیں۔ اکبر الدین اویسی قابل اراکین اسمبلی میں شمار ہوتے ہیں جو ریونت ریڈی کی زیر قیادت حکومت کے لئے چیلنج ثابت ہوسکتے ہیں۔
ریونت ریڈی کے سیاسی سفر سے متعلق معلومات کے تحت وہ ایک غیر سیاسی زراعت پیشہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اے وی کالج حیدرآباد سے بی اے کی تکمیل کی۔ دوران تعلیم انہوں نے اے بی وی پی طلباء تنظیم ‘ آر ایس ایس سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں انہوں نے رئیل اسٹیٹ اور دیگر کاروبار میں قسمت آزمائی کی ۔ انہوں نے اپنا سیاسی سفر ٹی آر ایس (بی آر ایس) سے کیا اور تعجب کی بات یہ ہیکہ بحیثیت چیف منسٹر کانگریس وہ بی آر ایس کو شکست دے کر اپوزیشن کی صف میں بٹھانے میں کامیاب ہوئے۔ بعد ازاں وہ سال2001-02 میں ٹی آر ایس کو خیر باد کہتے ہوئے 2006ء میں زیڈ پی ٹی سی امیدوار کی حیثیت سے بطور آزاد امیدوار کامیابی حاصل کی۔ 2007ء میں ایم ایل سی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد تلگودیشم میں شمولیت اختیارکرلی۔ بعد ازاں 2009ء میں میں پہلی دفعہ ایم ایل اے کی حیثیت سے کوڑنگل سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے دوبارہ 2014ء میں بھی کامیاب رہے۔ بعدازاں تلگودیشم سے انحراف کرتے ہوئے 2017ء میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ 2018ء کے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس امیدوار کے ہاتھوں شکست فاش کے بعد اگلے چھ ماہ کے عرصہ میں پارلیمانی انتخابات میں حلقہ پارلیمان ملکاجگیری سے کامیابی حاصل کی۔ 2021ء میں ریونت ریڈی صدر تلنگانہ کانگریس نامزد کئے گئے جو صرف چار سالہ عرصہ میں ترقی ہوئے ریاستی صدر کے عہدہ پر فائز کئے گئے۔ یہاں ان کو کانگریس کے اہم اور سینئر قائدین کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود وہ سونیا گاندھی ‘ راہول گاندھی کے علاوہ ملیکارجن کھرگے سے قریبی روابط اور ان کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران شرکت اور ریونت ریڈی کی سیاسی قابلیت کے ہائی کمان کے سامنے مظاہرہ کے سبب وہ ان قائدین کے نور نظر بن کر ابھرنے میں کامیاب رہے اور کانگریس ہائی کمان کی جانب سے تلنگانہ میں کانگریس کی کامیابی کا سہرا ان ہی کے سر بندھا جس کے سبب وہ چیف منسٹر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
نئی ریاست تلنگانہ کے وجود میں آنے کے بعد 2014ء میں بالترتیب 2019ء کے دوران کے چندرشیکھر راؤ چیف منسٹر رہے۔ اے ریونت ریڈی کو نئی ریاست تلنگانہ کے دوسرے چیف منسٹر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اوران کی کامیبابی کو کانگریس پارٹی جب مرکز میں برسراقتدار تھی کی جانب سے نئی ریاست کے قیام عمل میں لایا تھا لیکن ریاست میں کانگریس کو ایک دہے کے بعد اقتدار حاصل ہونے پر کانگریس حلقوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اس کے برخلاف جہاں ساری ریاست تلنگانہ کے مسلم افراد کی جانب سے کانگریس کو ریاست تلنگانہ میں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار انجام دیا۔ وہیں کانریس پارٹی سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ اقلیتوں میں یہ احساس پایاجاتا ہے کہ کانگریس ہو یاپھر دیگر کوئی بھی سیاسی جماعت مسلم قیادت کو برداشت نہیں کرسکتی اور اسی وجہ سے کوئی مسلم امیدوار نہ صرف کانگریس بلکہ بی آر ایس سے منتخب نہ ہوسکا سوائے مجلس کے 7اراکان اسمبلی کے جہاں مذکورہ اسمبلی حلقہ جات میں مسلم طبقہ کی اکثریت پائی جاتی ہے۔
مسلم طبقہ میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کانگریس کی جانب سے مسلم ڈکلریشن کے تحت مسلم طبقہ کے افراد کی زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات میں ترقی و بہبودی کے لئے مسلم طبقہ کے بااثر شخصیت کو وزارتی عہدہ دیا جائے تاکہ مسلم اقلیت کو اس بات کا احساس رہے کہ کانگریس کی مسلم اقلیتوں کی جانب سے بھر پور تائید و حمایت کا صلہ وزارتی عہدوں پر مسلم اقلیت کے قائدین کے تقرر کے علاوہ مختلف کارپوریشنوں اور بورڈز کے صدور نشینوں کی تعیناتی کے ذریعہ مسلم طبقہ کے افراد میں پھیلی بے چینی و تشویش کو دور کیاجاسکے اور جس طرح مسلم طبقہ کے افراد کی ترقی و بہبودی کیلئے مسلم سب پلان اوقافی اراضیات کے ناجائز قبضوں کی برخواستگی کے علاوہ اوقافی اراضیات کی بازیابی کے لئے ضروری ہے کہ کانگریس حکومت جلد از جلد وقف کمشنریٹ کے قیام کو ترجیح دے تاکہ ریاست کروڑ ہا روپیوں کی اراضی کو ناجائز قابضین جن میں اکثریت سیاسی جماعتوں کے قائدین کی پائی جاتی ہے کہ چنگل سے آزاد کروائی جاسکے جس کے ذریعہ ریاست کے مسلم اقلیتوں کی اوقافی آمدنی کے ذریعہ بنیادی ضروریات میں تعلیم سب سے اہم ہے ریاست کے مختلف اضلاع میں اوقافی اراضیات کے حصول کے ذریعہ تعلیمی اداروں کے قیام خاص طور پر میڈیکل کالجوں کے علاوہ اقلیتی انجینئرنگ کالجوں کے جال کو بچھایا جاسکتا ہے اگر حکومت نے اراضیات کے حصول کے ذریعہ وقف بورڈ کو ایک خود مختار ادارہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو ایسی صورت میں خود وقف بورڈ مسلم طبقہ کے تمام معاشی اور تعلیمی مسائل خود حل کرنے کے موقف میں ہوسکتا ہے۔ شرط اس بات کی ہے کہ حکومت اقلیتوں کے تئیں حقیقی معنوں میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے حقوق کو ان کے حوالے کردے حکومت وقت کو اقلتیوں کے مسائل پر مستقل توجہ دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔