مضامین

ناٹو کی اگلے 10 برس کی حکمت ِ عملی

منور مرزا

ناٹو نے اپنے نئے دس سالہ اسٹریٹیجک پلان کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اس کا اعلان اسپین کے شہر، میڈرڈ میں ہونے والے اجلاس کے بعد کیا گیا، جس میں رکن ممالک کے سربراہ شریک ہوئے۔ جوبائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد دوسال میں یہ دوسرا اجلاس تھا، جس میں وہ خود اور یوروپ کے تمام ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج ناٹو کس قدر اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اس سے پہلے برسلز میں اجلاس ہوا تھا،جس میں چین اور روس سے متعلق ناٹو کی پالیسی کا اجرا کرتے ہوئے ان دونوں ممالک کو مخالفین کی صف میں کھڑا کیا گیا۔
لیکن میڈرڈ اجلاس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اس وقت یوکرین کی جنگ زوروں پر ہے۔ جب رواں سال فروری میں روس نے یوکرین پر حملہ کیا، تو صدر پوٹن نے اس کی بڑی وجہ یہ بتائی کہ ماسکو‘ کیف کو ناٹو کا رکن نہیں بننے دے گا۔ اس کی خواہش ہے کہ یہ روس کا باج گزار رہے یا پھر نیوٹرل۔ ناٹو بنیادی طور پر یوروپ کے دفاع کے لیے قائم کیا گیا فوجی اتحاد ہے، اسی لیے جب یوکرین پر حملہ ہوا، تو ناٹو ممالک نے فوراً یوکرین کی بھرپور مالی، انسانی اور فوجی امداد شروع کردی، جس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ جنگ سے چند دن پہلے کہا جارہا تھا کہ ناٹو کی دماغی موت واقع ہو چکی ہے، لیکن یوکرین پر پوٹن کے حملے کے بعد یہ زندہ ہوگیا اور اب اسی دماغ سے ناٹو اتحاد نے روسی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مزید امریکی فوجیں یوروپ، خاص طور پر مشرقی یوروپ میں تعینات کی جائیں گی۔ یوکرین کو ایک جامع امدادی پیکیج، جس میں توانائی، طبی سامان، بلٹ پروف جیکٹس اور اینٹی ڈرون نظام شامل ہے، فراہم کیا جائے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر پوٹن کی جانب سے جنگ کو طول دینے کے باوجود امریکہ، مغربی ممالک اور ناٹو اتحاد نے کسی بھی قسم کی کم زوری نہیں دکھائی بلکہ میڈرڈ اعلان سے واضح ہوگیا کہ وہ نہ صرف روس پر اقتصادی پابندیاں سخت رکھیں گے، بلکہ فوجی طور پر بھی مزید فعال ہوں گے۔
شاید اسی لیے صدر جوبائیڈن نے کہا کہ ناٹو آج پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ روس ،ناٹو کو ایک بڑے خطرے کے طور پر لیتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ ناٹو، یوکرین تنازعے کے ذریعے اپنی برتری قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ فوجی حملہ کرنے میں پہل کس نے کی؟یہ کچھ اسی قسم کی حالت ہے، جیسے گزشتہ صدی کے آخر میں سوویت یونین کے بریک اپ سے پہلے ہوئی یا پھر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف یوروپ اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کا اتحاد قائم ہوا، جسے ”الائیڈ فورسز“ کانام دیا گیا تھا۔صدر پوٹن کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور سفارتی اسپیس کم ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ تیل، گیس اور خوراک کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے بھی روس تنقید کی زد میں ہے اور اسے عالمی تنہائی کا سامنا ہے۔علاوہ ازیں، اس کی توانائی کے ذرائع اور خوراک پر اجارہ داری بھی کم زور پڑ رہی ہے۔
ناٹو یا” نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن“ دنیا کا سب سے بڑا فوجی اتحاد ہے۔یہ 1949 ئ میں قائم کیا گیا۔ اس وقت اس کے12 رکن ممالک تھے، جن میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور فرانس جیسی بڑی طاقتیں شامل تھیں۔ اب اس کے رکن ممالک کی تعداد30ہے اور اس میں یوروپ کے علاوہ شمالی امریکہ کے دو ممالک بھی شامل ہیں۔ ناٹو اتحاد کادائرہ کار پھیلتا گیا اور اس نے کئی ممالک میں جنگی آپریشنز میں حصہ لیا، جیسے عراق اور افغانستان۔کہا جا سکتا ہے کہ اس کی فوجی سرحدیں افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ترکی اس کا فعال رکن ہے اور اس نے مختلف ملٹری آپریشنز میں، جن میں افغانستان کی جنگ بھی شامل ہے، حصہ لیا۔ اسی حوالے سے ایک اہم تبدیلی یہ سامنے آئی ہے کہ ترکی، جو پہلے سویڈن اور فن لینڈ کی اس میں شمولیت کی مخالفت کرتا تھا، اب اپنی مخالفت ترک کرچکا ہے، جس کا اعلان صدر اردغان نے میڈرڈ اجلاس کے موقع پر کیا۔
ناٹو کا ہیڈ کوارٹر بلجیم کے شہر، برسلز میں ہے اور اس کے پاس 35لاکھ فوج ہے،جو کسی بھی علاقے تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ناٹو نے میڈرڈ اجلاس میں یوکرین سے متعلق خصوصی امداد کے فیصلے کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تصور کو بھی اپ ڈیٹ کیا۔ یہ حکمت عملی تین نکات پر مبنی ہے۔ اس تصور کا غور سے جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ناٹو کے نقطہ نظر میں چین اور روس کے تعلقات کے حوالے سے یک سر تبدیلی آئی ہے۔ناٹو اسٹریٹجک تصور کے مطابق ،روس اب ناٹو اور اس کے اتحادیوں کے لیے سب بڑا اور براہ راست خطرہ ہے۔ اس دستاویز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ناٹو ممالک اب روس کو ایک پارٹنر کے طور پر نہیں لیتے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ رابطوں کے راستے کھلے بھی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کشیدگی کم کی جاسکے۔ فن لینڈ اور سویڈن کی درخواستیں قبول کرنے سے روس کے ساتھ ایک اور تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ گو وہ ابھی ناٹو کے مکمل رکن نہیں بنے کیوں کہ اس کے لیے تمام رکن ممالک کی جانب سے توثیق ہونا ابھی باقی ہے، تاہم صدر پوٹن نے اس پر اپنے پہلے ردعمل میں خبردار کیا کہ اگر فن لینڈ اور سویڈن نے اپنی سرزمین پر ناٹو انفرا اسٹرکچر قبول کیا، تو روس بھی اس کا جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ روس ان ممالک کے لیے وہی خطرات پیدا کرے گا، جیسے وہ روس کے خلاف پیدا کریں گے۔ ان دونوں ممالک کی ناٹو میں شرکت کئی عشروں میں یوروپی سلامتی کے لیے سب سے بڑی اور اہم تبدیلیوں میں سے ایک ہوگی۔ ترکی نے ان کی شمولیت قبول کر کے اپنی روس سے بڑھتی ہوئی دوستی پر نشانات لگا دیے ہیں۔یاد رہے، جب صدر اردغان کے امریکہ سے تعلقات کشیدہ تھے، تو انہوں نے روس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا اور ان کے تعلقات میں خاصی گرم جوشی دیکھی گئی تھی۔ وہ صدر پوٹن سے ملاقاتوں کے بعد اس کا میزائل دفاعی نظام بھی خریدنے کی طرف راغب ہوئے۔ یاد رہے، ترکی، روس کے خلاف ناٹو کا مشرقی سرحد پر سب سے مضبوط قلعہ سمجھا جاتا ہے۔امریکہ کے کئی فوجی بیسز یہاں موجود ہیں، جن میں ایکرلک بیس بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے مشرقِ وسطیٰ کی نگرانی اور فوجی کارروائی عمل میں آتی ہے۔ میڈرڈ کے اسٹرٹیجک تصور میں چین کو پہلی مرتبہ یورو اٹلانٹک سیکورٹی کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ناٹو کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ناٹو کو اب اسٹرٹیجک مقابلے کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین اب جوہری ہتھیاروں سمیت اپنی فوجوں میں خاصا اضافہ کر رہا ہے۔ تائیوان کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین اسے دھمکا رہا ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ چین، ناٹو کا دشمن نہیں، لیکن اسے آنے والے سنگین چیلنجز پر نظر رکھنی پڑے گی۔ فوجی ماہرین جانتے ہیں کہ 2010 ء میں جو اسٹرٹیجک تصور کی دستاویز پیش کی گئی تھی، اس میں چین کا ذکر نہیں تھا۔ اب نئی دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی بڑھتی طاقت کو ناٹو نے اپنے لیے چیلنج کے طور پر لیا ہے، حالاں کہ اگر چین اور امریکہ یا چین اور ناٹو کے سالانہ ملٹری بجٹ پر نظر ڈالی جائے، تو اس کا کوئی موازنہ نہیں۔ناٹو ممالک کا بجٹ غیر معمولی طور پر اس سے زیادہ ہے۔اصل میں چین اقتصادی قوت بڑھا کر دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔اس سے اگر چین کو معاشی فائدہ ہے، تو ان ممالک کو بھی بہت زیادہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں، جو اس کے ساتھ شامل ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اس کا فلیگ شپ ہے، جسے صدر شی جن پنگ نے نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے اور اسی سے متاثر ہو کر مغربی ممالک نے ”بِلڈ اے بیٹر ورلڈ“ منصوبے کا آغاز کیا، جس پر انہوں نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری طرف، صدر پوٹن کی حکمت عملی اپنی فوجی طاقت کے استعمال پر ہے۔گزشتہ سالوں میں انہوں نے کریمیا، شام میں کام یابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے امریکہ کی افغانستان سے پسپائی کو شاید اس کی مکمل شکست سمجھ لیا ہے۔صدر پوٹن یوکرین پر حملے سے متعلق سمجھتے رہے کہ اس سے ناٹو ممالک میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ دوسری طرف، ان کا خیال تھا کہ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ بھی ان کی حمایت کرے گا، کیوں کہ ناٹو ان علاقوں میں بیس سالوں تک موجود رہا، جس کی یادیں یہاں کے لوگوں کے لیے ناگوار ہیں۔امریکہ کا گزشتہ تیس سالوں میں فوجی آپریشنز کا جو ٹریک ریکارڈ رہا، اس سے پوٹن سمجھے کہ امریکہ اب دنیا میں رائے عامہ کا سامنا نہیں کرسکے گا، اس لیے سوویت یونین توڑنے کا حساب چکانے کا وقت آگیا ہے۔ یہ عجیب سی مماثلت ہے کہ پہلی افغان جنگ کے بعد یہی تصور امریکہ اور مغربی طاقتوں کا سوویت یونین کے بارے میں تھا۔ اسی لیے پہلی افغان وار میں کابل سے واپسی کے بعد امریکہ اور مغرب نے سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور وسط ایشیا آزاد ہوگیا۔ ٹرمپ کے زمانے میں جو تقسیم امریکی معاشرے میں نظر آئی اور جس قسم کی فضا مغربی ممالک اور امریکی تعلقات میں نظر آئی، اس نے بھی پوٹن کو بہت حوصلہ دیا، لیکن وہ یہ اندازہ لگانے میں کام یاب نہیں ہوئے کہ افغانستان سے امریکی واپسی ایک منصوبے کا حصہ تھی کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی قوت منتقل کرنا چاہتا تھا۔یعنی مغربی ایشیا سے انڈو چائنا کی طرف۔
اسی طرح مغربی طاقتوں کے افغانستان سے نکلنے کو وہاں ایک تجربہ سمجھا گیا یا ایک تبدیلی، کوئی شکست یا ہار نہیں۔ زیادہ شور میڈیا میں رہا، جس نے اصل معاملہ دھندلا دیا۔صدر پوٹن جیسے تجربہ کار حکم ران، گھاگ سیاست دان اور اسٹرانگ مین کا امیج رکھنے والے سفارت کے عالمی کھلاڑی کیسے اس غلط اندازے میں آئے، یہ ابھی زیر بحث ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ روسی حملے نے ناٹو، مغرب اور یوروپ کو غیرمعمولی طور پر متحد کردیا ہے، جس کا چھ ماہ قبل تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ممالک کے عوام روسی حملے پر اپنے ممالک کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں اور معاشی سختیاں اور مہنگائی برداشت کر رہے ہیں۔یہ نہ صدر پوٹن کے لیے کوئی اچھی بات ہے اور نہ ہی دنیا کے لیے، کیوں کہ دونوں ہی مصیبت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔دنیا مہنگائی کی زد میں ہے جب کہ روس دلدل میں دھنستا جارہا ہے اور اس سے نکلنے کے راستے محدود ہوتے جارہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں مغربی حمایت کی وجہ تیل اور گیس کی بلند قیمتوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ جہاں تک روس کے سرحدی پڑوسی، چین کا معاملہ ہے، تو ماہرین سمجھتے ہیں کہ تیل یا گیس خریدنا الگ بات ہے، لیکن اگر صدر پوٹن اس خوش فہمی میں ہیں کہ چین ان کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوکر کسی جنگی اتحاد میں ناٹو کا سامنا کرے گا، تو یہ ان کا ایک اور غلط اندازہ ہوگا۔ روس کے عوام نئی صدی میں گلوبلائزیشن کی وجہ سے مغرب کے معیار زندگی کے تصور کو اپنا چکے ہیں۔ جیسے مغربی جمہوریتوں میں کھرب پتی موجود ہیں، ویسے ہی روس میں بھی موجود ہیں۔دونوں کا ایک ہی فلسفہ ہے، ذاتی اور نجی ملکیت اور دولت۔اب کیسے صدر پوٹن ان ارب پتیوں کو پھر سے سوویت کمیونسٹ نظریے پر لاکر ان کی دولت کو ریاست کی ملکیت بناسکیں گے، یہ دیکھنا ہوگا، کیوں کہ سوویت یونین کی بحالی کے خواب میں یہ سب سے اہم ہوگا۔
صدر جوبائیڈن نے ناٹو اجلاس میں کہا کہ ناٹو اب مغرب کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین پر حملے نے ناٹو کو ہزار والٹ کا جھٹکا دیا اور وہ اب پوری طرح جاگ گیا ہے۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ جس خطرے کا وہ صرف کاغذات میں ذکر کرتا چلا آ رہا تھا، وہ اب میدان پر آچکا ہے بلکہ اس پر حملہ آور ہوچکا ہے۔اب ایک انچ زمین دینے کا مطلب حقیقی شکست ہے۔ عراق اور افغانستان دوسرے علاقوں کے ملک تھے، جہاں کا اصول مفادات تھا۔ اب یوکرین اور اس سے ملحق سرزمین یوروپ اس کا قلب ہے اور وہ دشمن کو اپنے قلب پر وار کرنے یا کام یاب ہوتے کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ یاد رہے، بوسنیا جو یوروپ کا مسلم ملک ہے، وہاں بھی نوے کی دہائی میں امریکہ اور ناٹو نے فوجی کارروائی کر کے معاملہ نمٹایا تھا۔2021 ء میں ناٹو کے برسلز کے اجلاس کے فوراً بعد بائیڈن، پوٹن ملاقات ہوئی تھی۔ خیال تھا کہ اس میں کسی مفاہمت کی جانب بڑھا جائے گا،مگر لگتا ہے، افغانستان سے امریکہ کی واپسی نے اس مفاہمت کو مخاصمت میں تبدیل کردیا۔ اس واپسی کو پوٹن نے اپنے لیے موقع سمجھا۔یوں لگتا ہے کہ ناٹو اب ایک نیا دور شروع کرنے جارہا ہے۔ اس میں اس نے اپنے براہ راست دشمن اور بڑے چیلنج کے بارے میں کوئی بات نہیں چھپائی۔
ناٹو کا یہ اسٹریٹیجک تصور، جو دس سال کے لیے ہے، کھلی کتاب ہے، کوئی بھی اس کا تجزیہ بہ آسانی کرسکتا ہے۔ یہ کوئی سازش نہیں بلکہ ایک فوجی اور سفارتی ڈاکیومنٹ ہے اور اس میں ان ممالک کے لیے واضح اشارے ہیں، جو امریکہ، یوروپ اور مغربی دنیا کے ساتھ سفارتی، معاشی اور دوسرے روابط رکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر بھرپور غور کرنا لازم ہے ،کیوں کہ یہ دنیا کو ایک نئی سمت دے گا۔