تلنگانہ

تلنگانہ انتخابات:امیدوار وہی لیکن نشانات بدل گئے۔ متحدہ ضلع کھمم میں دلچسپ سیاسی منظر

ٹھیک پانچ سال بعد امیدوار تو وہی ہیں تاہم ان کے انتخابی نشان بدل گئے ہیں۔یہ صورتحال تلنگانہ کے متحدہ ضلع کھمم کی ہے۔

حیدرآباد: ٹھیک پانچ سال بعد امیدوار تو وہی ہیں تاہم ان کے انتخابی نشان بدل گئے ہیں۔یہ صورتحال تلنگانہ کے متحدہ ضلع کھمم کی ہے۔

متعلقہ خبریں
رئیل اسٹیٹ ونچرکی آڑ میں چلکور کی قطب شاہی مسجد کو شہید کردیاگیا: حافظ پیر شبیر احمد
جمعہ کی نماز اسلام کی اجتماعیت کا عظیم الشان اظہار ہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
تلنگانہ انتخابات: ووٹ دینے کے لیے آنے والے دو افراد کی موت
انتخابی ڈیوٹی پر 2.5 لاکھ اسٹاف کی تعیناتی:وکاس راج
تلنگانہ میں کانگریس کو 10 نشستیں ملیں گی، چیف منسٹر پرامید

اس تلگو ریاست میں اس ماہ کی 30تاریخ کو ووٹ ڈالے جانے والے ہیں۔گذشتہ انتخابات میں دوسری جماعت سے انتخابات میں مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی اکثریت نے اس مرتبہ وفاداری تبدیل کردی ہے۔

سیاست میں پارٹی اور کھنڈواکی تبدیلی عام بات ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ متحدہ ضلع کھمم میں پارٹی کی تبدیلی کی عجیب وغریب صورتحال سامنے آئی ہے۔

کون، کونسی پارٹی میں ہے یہ سمجھنا قدرے دلچسپ ہوگیا ہے۔پارٹی کی تبدیلی کرنے والوں کی تعداد اس مرتبہ غیرمعمولی ہے۔

متحدہ کھمم ضلع میں سیاسی منظر عجیب وغریب صورتحال پیش کررہا ہے۔جنوبی ہند کی2014میں تشکیل دی گئی اس نئی ریاست کے دوسری مرتبہ سال 2018میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر امیدواروں نے پارٹی بدل دی ہے جس کے نتیجہ میں انتخابی نشان بھی بدل گئے ہیں۔

گذشتہ انتخابات میں ایک نشان پر مقابلہ کرنے والے امیدوارنے اس مرتبہ پارٹی بدل کر دوسرا نشان حاصل کرلیا ہے جس کے نتیجہ میں اس کانشان بھی بدل گیا ہے۔ایسے امیدواروں کی اکثریت نئے انتخابی نشان پر قسمت آزمائی کررہی ہے۔ایلندو حلقہ سے سال 2018کے انتخابات میں بی آرایس(اُس وقت کی ٹی آرایس) کے ٹکٹ پر کنکیا نے مقابلہ کیا تھا۔

اس حلقہ سے اپوزیشن کانگریس کی طرف سے ہری پریہ نے مقابلہ کیاتھا اور کامیابی حاصل کی تھی۔شکست سے دوچار کنکیا،بعد ازاں بھداردی کوتہ گوڑم ضلع پریشد چیرمین بن گئے تھے جبکہ ہری پریہ نائک نے حکمران جماعت بی آرایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔

پانچ سال بعد اس مرتبہ کے انتخابات میں اس حلقہ کے سیاسی چہرے بد گئے ۔اس مرتبہ ہری پریہ ریاست کی حکمران جماعت بی آرایس اور کنکیا اپوزیشن جماعت کانگریس سے انتخابی میدان میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ پیناپاکا اسمبلی حلقہ میں بھی اسی طرح کی صورتحال دیکھی جارہی ہے۔

سال 2018میں منعقدہ انتخابات میں اہم جماعتوں کے امیدوار اس مرتبہ پرانے کے بجائے نئے نشانات پر انتخابی میدان میں اپنی قسمت کو آزمارہے ہیں۔اس حلقہ سے گذشتہ اسمبلی انتخابات میں ٹی آرایس سے پی وینکٹیشورلو اور کانگریس کے امیدوار کے طورپر آرکانتاراو نے مقابلہ کیا تھا، کانتا راو کو کامیابی حاصل ہوئی تھی تاہم اس مرتبہ حکمران جماعت بی آرایس کے امیدوار کے طورپر کانتاراو مقابلہ کررہے ہیں جبکہ کانگریس کی طرف سے پی وینکٹیشورلوانتخابی میدان میں ہیں۔

گذشتہ اسمبلی انتخابات میں پالیروحلقہ سے کانگریس امیدوار کے طورپر کے اوپیندرریڈی نے مقابلہ کیا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی تاہم بی آرایس امیدوار ٹی ناگیشورراونے ان کے مقابلہ شکست اٹھائی تھی جس کے بعد صورتحال یکسربدل گئی اوراوپیندرریڈی نے بی آرایس میں شمولیت اختیار کرلی۔

موجودہ انتخابات میں وہ پالیروحلقہ سے بی آریس کے امیدوار کے طورپر مقابلہ کررہے ہیں جبکہ حکمران جماعت کے انتخابی نشان کارپر اسی حلقہ سے مقابلہ کرنے والے ٹی ناگیشورراو اس مرتبہ کھمم اسمبلی حلقہ سے کانگریس امیدوار بن گئے ہیں۔وہ ہاتھ کے نشان کے ساتھ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے اس حلقہ سے ان کو منتخب کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔

ستوپلی حلقہ اسمبلی سے تلگودیشم کے ٹکٹ پر گذشتہ تین انتخابات میں مقابلہ کرنے والے ایس وینکٹ ویرئیا اس مرتبہ کار کے انتخابی نشان کے ساتھ انتخابی میدان میں ہیں کیونکہ وہ حکمران جماعت بی آرایس میں شامل ہوگئے ہیں۔گذشتہ انتخابات میں اشواراو پیٹ اسمبلی حلقہ سے تلگودیشم کے ٹکٹ پر ایم ناگیشورراو نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے بی آرایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔وہ اس مرتبہ کار کوووٹ دینے کی خواہش کررہے ہیں کیونکہ وہ اب بی آرایس امیدوار بن گئے ہیں۔کوتہ گوڑم اسمبلی حلقہ کے موجودہ بی آرایس امیدوار وی وینکٹیشورراو گذشتہ انتخابات میں اسی حلقہ سے کانگریس سے منتخب ہوئے تھے۔

بعد ازاں انہوں نے اپنی وفاداری تبدیل کرلی اور برسراقتدارجماعت میں شامل ہوگئے جس کے بعد ان کو بی آرایس کا امیدوار بنایاگیا۔

a3w
a3w