صحت

اضافی وزن اور موٹاپے کو گھٹانے کیلئے غذا ترک کردینا عقل مندی نہیں

آج کل اسمارٹ بننے اور دبلا نظر آنے کا جنون ہر کسی کے سر پر سوار ہے۔ بالخصوص خواتین جاذب نظر دکھائی دینے اور نت نئے فیشن اپنانے کی خاطر دبلا نظر آنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔

آج کل اسمارٹ بننے اور دبلا نظر آنے کا جنون ہر کسی کے سر پر سوار ہے۔ بالخصوص خواتین جاذب نظر دکھائی دینے اور نت نئے فیشن اپنانے کی خاطر دبلا نظر آنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ ایک طرح سے یہ بری بات نہیں کیونکہ موٹاپا کئی بیماریوں کی جڑ اور خوبصورتی کو ختم کر دیتا ہے لیکن اس رجحان کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دبلا نظر آنے کے لیے اکثر لوگ ڈائیٹنگ کا سہارا لیتے اور یہ جانے بغیر کہ ڈائیٹنگ کے نقصانات کیا ہیں …… کس حد تک ڈائیٹنگ کی جانی چاہیں …… محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ڈائیٹنگ کو معمول بنا لیتے ہیں اور پھر بھی نتائج حسب منشا حاصل نہیں کر پاتے۔

جدید تحقیق اور مسلسل تجربات سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بار بار ڈائیٹنگ کرنا آپ کو پہلے سے زیادہ موٹا کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب آپ وزن کم کرتے ہیں تو یہ جسم میں موجود پانی اور مسلز کی صورت میں ہوتا ہے…… لیکن جب آپ کا وزن دوبارہ بڑھتا ہے تو یہ چربی (FAT) کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اکثرلوگ ڈائیٹنگ کو وزن کم رکھنے کا بہترین نسخہ تصور کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ مشہور محقق اور ماہر جوڈی مہلے نے اپنی کتاب (The bodywise woman) میں تحریر کیا ہے کہ 50 فیصد خواتین ہر وقت ڈائیٹنگ پر عمل پیرا ہوتی ہیں جبکہ ٹین ایجرز میں یہ رجحان اس قدر زیادہ ہے کہ قریب 90 فیصد ٹین ایجرز باقاعدگی سے ڈائیٹنگ کرتے ہیں جبکہ 50 فیصد چھوٹے بچے بھی کسی وقت ڈائیٹنگ کو اپناتے ہیں۔

یاد رکھیں آپ جتنی ڈائیٹنگ زیادہ کریں گے، آپ کا بدن اتنی زیادہ چربی جمع کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔ ایل پی ایل نامی انزائم چربی جمع کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ جب ہم ڈائیٹنگ کرتے ہیں تو ایل پی ایل زیادہ متحرک اور تعداد میں بڑھ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ ڈائیٹنگ کرنا چھوڑ دیتے ہیں، تب بھی ایل پی ایل انزائمز اس وقت تک معمول کی تعداد میں واپس نہیں آتے جب تک کہ آپ کم کیا ہوا وزن تقریباً دوبارہ حاصل نہ کر لیں۔

یہاں یہ امر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ کو وزن کم کرنا ہے تو آپ کو اپنے بدن کے میکانکی عمل سے ”نپٹنا“ ہوگا۔ اس میکانکی عمل میں قوت ہاضمہ سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے…… یعنی وہ رفتار جس سے آپ کا بدن خوراک استعمال کرتا ہے …… اگر آپ کے نظام ہضم کی رفتار کم ہے تو جو خوراک بھی آپ کھائیں گے وہ چربی کے طور پر جمع ہوتی رہے گی۔

ایک حیران کن امر یہ ہے کہ قوت ہضم کو بڑھانے کا طریقہ زیادہ کھانا ہے نہ کہ کم (1000 کیلریز یومیہ) جو کیلریز ہم خوراک کے ذریعے جسم میں داخل کرتے ہیں، ہمارا نظام ہضم ان میں سے 60فیصد کو استعمال کرنے کا ذمہ دار ہے جبکہ باقی 40 فیصد ہمارے جسم کی حرکت کے ذریعے تحلیل ہو جاتی ہیں۔

یونیورسٹی آف فلوریڈا کے شائع کر دہ اعداد و شمار کے مطابق ڈائیٹنگ شروع کرنے والے 35 فیصد افراد اس کے مستقل عادی ہو جاتے ہیں اور لڑکیوں میں یہ شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔

نظام ہضم کو فعال رکھیں

قوت ہضم کا زیادہ ہونا اس لحاظ سے بے حد فائدہ مند ہے کہ اس کے ذریعے ہمارا جسم کیلریز کو تیزی سے استعمال کرتا ہے اور نتیجتاً جسم میں چربی کی مقدار بڑھنے نہیں پاتی۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا جو بے تحاشا کھاتے ہیں لیکن پھر بھی دبلے پتلے رہتے ہیں …… اس کی ایک اہم وجہ قوت ہضم ہے جس کے باعث ان کا نظام ہضم کیلریز کو تیزی سے تحلیل کر کے چربی بننے سے روکتا ہے۔ اسی طرح بعض افراد ہمیشہ خود پر قابو رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن موٹاپا ان کی جان نہیں چھوڑتا…… اس کی بنیادی وجہ بھی قوت ہضم کا کم ہونا ہے۔موجودہ حالات میں ڈائیٹنگ کے جال میں پھنسنے سے بچنا مشکل ہے کہ ہر کوئی اس خبط میں مبتلا ہے لیکن عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ڈائیٹنگ کے بجائے اپنی قوت ہضم بڑھانے پر توجہ دی جائے۔ ذیل میں ورلڈ فوڈ WFماہرین کے بتائے طریقے بیان کئے جا رہے ہیں جن پر عمل کر کے آپ اپنی قوت ہضم میں اضافہ اور جسم میں فالتو چربی کو کم کر سکتے ہیں۔

جو کھائیں سوچ سمجھ کر کھائیں:

سب سے پہلے ایک اہم بات یاد رکھیں کہ صبح کا ناشتہ ضرور کریں۔ آج کل اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں صرف جوس وغیرہ کو ناشتہ تصور کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق صرف روزانہ ناشتہ کرنے سے ہی آپ اپنی قوت ہضم کو 10 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔ اب واپس اس طرف آتے ہیں کہ جو کھائیں اس پر نظر رکھیں۔ فائبر والی اشیاء، جو، دلیہ، پروٹین والی چیزیں، انڈے، مالٹا، پالک، ملائی کے بغیر دودھ، کھیرا، سلاد، زیتون کا تیل آپ کی خوراک کا اہم حصہ ہونے چاہئیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ زیادہ فائبر والی غذا کھائیں جو جلد ہضم ہو سکیں۔ پانی زیادہ سے زیادہ مقدار میں پئیں۔ ایسی چیزوں کا استعمال کم سے کم کریں جن میں بہت زیادہ چینی یا شکر استعمال کی گئی ہو۔ تمباکونوشی سے پرہیز کریں یا اس کا استعمال بہت کم کر دیں …… یہ چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کی قوت ہضم میں نمایاں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

کیلریز

اس بات کا اندازہ لگائیں کہ آپ کو ایک ہفتہ میں ایک پاؤنڈ وزن کم کرنے کے لیے کتنی کیلریز کی ضرورت ہے۔ اگر آپ صرف1000 کیلریز یومیہ کے معمول پر عمل پیرا ہیں تو یقین جانیے بہت جلد آپ ہمت ہار جائیں گے کیونکہ فاقہ کشی زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رکھی جا سکتی۔ اس میکانکی عمل کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب ہم اچانک کیلریز کا استعمال انتہائی کم کر دیتے ہیں تو ہمارے بدن کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں خوراک کی بہت کم مقدار میسر ہے۔ اس طرح کی اچانک فاقہ کشی وقتی طور پر وزن میں کمی کا باعث تو بن جاتی ہے لیکن ہمارا بدن بہت جلد توانائی کی کمی کے مطابق خود کو ڈھال کر خود کو ایک طرح کی دفاعی حالت میں لے جاتا ہے۔ نتیجتاً ہماری قوت ہضم اور انرجی لیول کم ہو جاتا ہے اور ایسے میں کیلریز کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا بدن بھی نتیجتاً قوت ہضم کو مزید کم کر کے اضافی کیلریز کو چربی کی صورت جمع کرنے لگتا ہے۔

وقفوں میں کھانا بہتر ہے:

اگر آپ عام معمول یعنی تین وقت کھانے (ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا) کو پانچ یا چھ وقفوں میں تقسیم کر لیں تو یہ آپ کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ زیادہ وقفوں میں کھانے سے آپ کے بدن کے اندر موجود کیلریز کو تحلیل کرنے والے میکانکی عمل کی رفتار سست یا کم نہیں ہونے پاتی۔ اس طریقہ کار پر عمل کرنے سے صبح کے ناشتہ سے لے کر رات کے کھانے تک آپ کی قوت ہضم میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔ پروٹین اور پھلوں کے ذریعے وقفے وقفے سے اپنے ہاضمے کو متحرک رکھیں۔ یہ نسخہ میٹھی اشیاء کے حوالے سے آپ کی طلب کو بھی کم کرنے کا باعث بنے گا۔ سلائس چکن بریسٹ اور فریش پائن ایپل کے ٹکڑے بھی بہترین سنیک ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ دوپہر کے کھانے میں کاربو ہائیڈریٹس اور سبزیوں کا استعمال فائدہ مند ہے۔

تھائی رائیڈ کا معائنہ کرائیں:

تھائی رائیڈ ہارمونز جسم کے ٹشوز میں داخل ہو کر ہاضمے کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ جسم میں تھائی رائیڈ ہارمونز کی تعداد بڑھانے سے موٹاپے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہارمونز بہت سے ٹشوز میں فیٹی ایسڈز بناتے ہیں۔ ان کے ذریعے کاربوہائیڈریٹ ہاضمے کا نظام متاثر ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان کا معائنہ کروا کر یہ بات یقینی بنائی جائے کہ یہ ہارمونز درست طور پر کام کر رہے ہیں۔

وٹامن بی کی مناسب مقدار لیں:

اگر آپ خود میں توانائی و قوت کی کمی محسوس کرتے ہیں تو آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کے بدن کو وٹامن بی (بی۔6 اور بی۔12) کی مناسب اور ضروری مقدار مل رہی ہے۔ وٹامن بی۔12 خاص طور پر قوت و توانائی کے حوالے سے اہم ہے۔ چنانچہ وٹامن بی کی ضروری مقدار لینے کے لیے بی کمپلیکس لینا فائدہ مند ہے نیز ایسی غذا کا استعمال بھی زیادہ کریں جس میں وٹامن بی دوسرے وٹامنز کے ساتھ موجود ہو پالک، چنے، خربوزہ، گوبھی، مچھلی، پولٹری اور انڈوں میں وٹامن بی کی زیادہ مقدار موجود ہوتی ہے لہٰذا ان کا استعمال زیادہ کریں۔

خود کو متحرک رکھیں

نت نئی آسائش، انٹرنیٹ، موبائل، کیبل اور کمپیوٹرز کا بڑھتا استعمال ہمیں آرام پسند اور غیر متحرک کر دیتا ہے۔ پیدل چلنا، ورزش کرنا اور جسمانی مشقت کم ہوتی جا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کا نظام ہضم متاثر ہو رہا ہے اور ہاضمے کی خرابیاں بڑھ رہی ہیں۔ ڈاکٹر وینڈی ڈوئیلے جو برطانوی ماہر خوراک ہیں، اپنی تحقیق میں لکھتی ہیں ”زیادہ تر خواتین ڈائیٹنگ کرتے ہوئے محض کیلریز کی مقدار کم کرنے پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ایکسر سائز اور جسم کو متحرک بنانے کو اہم نہیں سمجھتیں“ یاد رکھیں ورزش آپ کی قوت ہضم کو بڑھاتی ہے نتیجتاً آپ کا جسم کیلریز کو تیزی سے تحلیل کرتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایکسر سائز سے بننے والے مسلز کو قائم رکھنے کے لیے جسم کو اضافی کیلریز تحلیل کرنا پڑتی ہیں چنانچہ مسلز بنانے سے بھی آپ اپنا وزن کم کر سکتے ہیں۔ بعض خواتین سمجھتی ہیں کہ ہفتہ میں ایک بار جِم چلے جانے یا ایروبکس کر لینے سے وہ کافی ورزش کر لیتی ہیں لیکن اپنی قوت ہضم کو فعال رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر روز 20سے 30 منٹ تک ورزش کی جائے۔

وزن اٹھائیں

وزن اٹھانے یا جِم میں مشینوں کے ذریعے ورزش کرنے سے ہم اپنے مسلز کو مضبوط اور توانا بنا سکتے ہیں جو آپ کے جسم کی اضافی کیلریز کو فوری طور پر تحلیل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویٹ ٹریننگ کے ذریعے صرف 24 گھنٹوں میں آپ اپنی قوت ہضم میں پانچ سے دس فیصد تک اضافہ کر سکتے ہیں۔ سخت ویٹ ٹریننگ آپ کی قوت ہضم کو مسلسل 21 گھنٹوں تک بڑھا سکتی ہے۔

حقیقت پسندی

اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ راتوں رات خود کو دبلا پتلا اورا سمارٹ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ سوچ سراسر غلط ہے۔ وزن کم کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ آپ کیلریز کی مقدار میں معمولی کمی کر کے ایروبکس، ویٹ ٹریننگ، ورزش اور خود کو متحرک بنائیں۔ اس طرح سے وزن میں ہونے والی کمی مستقل اور بغیر کسی نقصان کے ہوگی۔ خوراک اور ورزش پر ذہنی اور جذباتی طور پر توجہ مرکوز رکھیں۔ اگر آپ خود کو ورزش کے بجائے آرام دہ نشست پر بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھتے یا آئس کریم کھاتے پائیں تو خود سے اس کی وجہ پوچھیں کیونکہ فٹنس اور اچھی صحت آپ کا اولین مقصد ہونا چاہیے…… اگر آپ اس کے لیے مناسب کوشش کریں گے تو مقصد پالیں گے۔ یاد رکھیں خود کو تبدیل کئے بغیر، غلطیاں دہراتے رہنے سے آپ نتائج تبدیل نہیں کر سکتے۔ خود کو تھوڑی بہت آزادی ضرور دیں لیکن اس کی حد مقرر کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنی والدہ کے ہاتھ کی بنی خاص سویٹ ڈش کھانے سے خود کو نہیں روک سکتے تو اسے کھانے کے بعد ہفتہ کے باقی دنوں میں میٹھی چیزوں سے ہر ممکن پرہیز کریں۔ڈائیٹنگ سے حاصل ہونے والے نتائج مستقل اور دیر پا نہیں ہو سکتے لہٰذا ماہرین کے بتائے اس طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے قوت ہضم کو مضبوط بنائیں۔ کیلریز کو تیزی سے تحلیل کر کے چربی جمع ہی نہ ہونے دیں۔ موٹاپے سے مستقل بچنے کا یہی درست اور دیرپا راستہ ہے۔

ماہرین کے مطابق چھوٹے بچوں کا زیادہ دیر تک ٹیلی ویژن دیکھنا اور کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھے رہنا صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ایک کینیڈین جائزے میں ماہرین نے اس بات کا پتہ لگایاکہ ایسے بچوں میں بڑے ہوکر دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں،جو زیادہ دیرتک ٹیلی ویژن دیکھا کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق 6 سے 7 سال کی عمرکے وہ بچے جو زیادہ دیرتک ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں، ان میں بصارت کی شیر یانوں میں پھیلاؤکا عمل رک جاتاہے، بہ نسبت ان کے جو کھلی جگہوں پر کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔

آنکھ کا انتہائی حساس پردہئ بصارت آٹھ تہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق وہ بچے جوکھیل کود میں مصروف رہتے ہیں، ان کی شیریانوں میں 0.0022 ملی میٹرکا پھیلاؤ دیکھنے میں آیا۔

جبکہ بالغ مرد وخواتین میں پردہئ چشم کی شیریانوں میں مسئلہ، مستقبل میں دل کی بیمار یوں کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق وہ بچے جوکم حرکت کرتے ہیں، ان میں بڑے ہوکر بلڈ پریشراوردل کی بیماریوں میں مبتلاء ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں 1429 / بچوں کی صحت، ان کا وزن، جنس، قد اوربلڈ پریشر کو مد نظر رکھاگیا۔ اس تحقیق میں یہ بتایاگیا ہے کہ جسمانی سرگرمیوں کے حامل بچوں کی شیریانوں اورخون پرمثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین کا اس ضمن میں یہ کہناہے کہ اسکول میں ایک ہفتے میں کم ازکم دو گھنٹوں کے لئے ورزش کولازمی قراردیا جانا چاہئیے ۔

اس سے قبل یعنی2010ء میں عمل میں لائے جانے والی ایک تحقیق میں اس بات کا انکشاف کیاگیا تھاکہ ایک دن میں دوگھنٹے یا اس سے زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنا یاکمپیوٹرگیمزکا کھیلنا بچوں کی دماغی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق، ایسے بچے جواپنا زیادہ ترٹیلی ویژن یا کمپیوٹراسکرین کے سامنے گزارتے ہیں، وہ نہ صرف نفسیاتی مسائل کاشکارہوسکتے ہیں بلکہ ان کے معمول کے رویوں میں بھی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔

جرنل پیڈیاٹرکس میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ایسے بچے جوچاہے کتنے بھی محترک کیوں نہ ہوں، وہ غیرمحسوس طریقے سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے دوران دس سے گیارہ سال کی عمرکے ایک ہزار بچوں کے تفصیلی انٹرویوکیے گئے، جن میں پچیس سوالوں پرمشتمل ایک نفسیاتی ٹسٹ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے مطالعاتی جا ئز و ں میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیلی ویژن اورکمپیوٹرکے سامنے زیادہ دیرتک وقت گزارنے کے نتیجے میں بچوں میں دماغی اور نظرکی کمزوری کی علامات پیداہوسکتی ہیں، جبکہ کمپیوٹر گیمزبچوں کے رویے پربھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

حالیہ عمل میں لائی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے یاکم باتیں کرنے سے بچوں میں کمیونیکیشن کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ٹی وی اورکمپیوٹرکے سامنے گھنٹوں گزار دینے والے بچوں کی بولنے کی صلاحیت بری طرح متاثرہوسکتی ہے۔ لندن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ انکشاف کیاگیا ہے، جس میں 6 ہزار لوگوں پرسروے کیاگیا۔ ہر چھ میں ایک والدین نے ایک تسلیم کیاکہ کم باتیں کرنے اور زیادہ ٹی وی دیکھنے سے بچوں کی اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کی صلا حیت متاثر ہونے لگتی ہے۔ جبکہ51 فیصد والدین کاکہناہے کہ اگروالدین بچوں سے زیادہ بات چیت نہ کریں توبھی ان کی کمیونے کیشن کی صلاحیت متاثرہوتی ہے۔ اس سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر لوگ اس بات کی اہمیت سے واقف ہیں کہ بچے کا بولنا ایک سنگ میل ہے، جس تک پہنچابچے کے لئے بہت ضروری ہے۔

ٹیکنالوجی کے اس دورمیں ویڈیوگیمز بچوں کا سب سے زیادہ پسندیدہ مشغلہ ہے، لیکن نئی تحقیق کے مطابق زیادہ ویڈیوگیمزکھیلنا بھی بچوں کی ذہنی صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہوتاہے۔ ہائی اورپرائمری اسکولوں کے تقریباً 3 ہزاربچوں پردو سال تک تحقیق کی گئی۔ جس میں ماہرین نے اس بات کا پتہ لگایا کہ جوبچے ٹی وی دیکھنے اور ویڈیو گیمزکھیلنے میں زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں ڈپریشن اورپریشانی بڑھ جاتی ہے اور وہ دوسروں سے ملنے جلنے سے گھبراتے ہیں۔ تاہم چھوٹے بچوں کوایک گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمزکھیلنے،کمپیوٹراستعمال کرنے یا ٹی وی دیکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہئیے۔

موٹے بچے جوزیادہ ٹی وی دیکھا کرتے ہیں ان میں ایسے بچوں کی بہ نسبت بلڈ پریشرکے زیادہ بڑھ جانے کا امکان رہتا ہے جو ٹی وی اسکرین کے سامنے زیادہ وقت نہیں گزار تے۔ ایک نئے جائزے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا۔

ذہنی دباؤیا تناؤکا بڑھ جانا اورناقابلِ استعمال اشیاء یاغذاکاکھانا اورٹی وی دیکھنا اس سے متعلق اسباب ہوسکتے ہیں۔ یونیور سٹی آف کیلیفورنیا، سیان ڈیگوکے پرنسپل انوسٹگیٹر ڈاکٹرجعفری بی شویمر نے ہیلت رائٹرس کو یہ بات بتائی۔

ایسے موٹے بچے جوروزانہ چارسے زائدگھنٹے ٹی وی دیکھاکرتے ہیں ان بچوں کی بہ نسبت ان میں ہائی بلڈ پریشرکے خطرہ کا زیادہ امکان رہتاہے جوکم ٹی وی دیکھاکرتے ہیں۔

شویمراورانکی ٹیم نے امریکن جرنل آف پریو ینٹیومیڈیسن میں یہ پتہ لگا یاکہ ٹی وی دیکھنے کے دوران موٹاپے اورہائی بلڈپریشر جس کو موٹاپے کا نتیجہ یا حاصل جاناجاتا ہے،کے اثرات واضح ہوتے ہیں۔

اس کے متعلق جانچ کرنے کے لئے انھوں نے 4/ سے 17/ سال کی عمرکے درمیان کے تقریباً 546 / بچوں کی تشخیص کی، جوموٹاپے یا فربہی کے لئے علاج کروانا چاہتے تھے۔ تشخیص کے بعد انھوں نے 43/ فیصد بچوں میں ہائی بلڈ پریشرکا پتہ لگایا۔ اس جائزے میں شریک ہونے والے زیادہ تربچے ایسے تھے جودویا اس سے زائدگھنٹوں تک ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے ہائی بلڈپریشرمیں مبتلاء تھے۔ ٹیلی ویژن دیکھنے میں زیادہ وقت گزارنا شدید موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے محققین نے بات بتائی۔

شویمر اوران کے ساتھیوں کی جانب سے عمل میں لائے جانے والے جائزے کے مطابق، ”ایسے بچے جو زیادہ ٹی وی دیکھاکرتے ہیں وہ چربی دارغذاؤں اورنمکین غذاؤں کا استعمال بھی زیادہ کرتے ہیں جوبراہ راست ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جائزوں میں یہ بھی ظاہرکیاگیا ہے کہ زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں میں ٹی وی سے متعلق تجربہ ومعلومات زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں ذہنی دباؤیا تناؤ بھی زیادہ ہوتاہے جو بلڈ پریشر پراثراندازہوتاہے اور جسم کوفربہ بنا تا ہے۔

تاہم،اس ضمن میں امریکن اکیڈیمی آف پیڈیا ٹریکس کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ والدین کواپنے بچوں کے ٹی وی دیکھنے کو محدودکرناچاہیے۔ یہ بات ان بچوں کیلئے زیادہ اہمیت کی حامل ہے جوکافی موٹے اورفربہی مسائل کا شکار ہیں۔ شویمرنے مزیدکہاکہ ”بچوں میں اکثر بلڈ پریشرکی پیمائش نہیں کی جاتی ہے، اوراگرچہ اس کی پیمائش کی بھی جائے توٹھیک طور پراس کی مناسبت نہیں ہوتی ہے۔ تاہم ایسے بچوں کے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے ڈاکٹرکے ساتھ اس بلڈ پریشرکے مسئلے کواٹھائیں اوراس کا بہتر حل نکالیں۔
٭٭٭

a3w
a3w