مضامین

راہول گاندھی کے خلاف کارروائی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ انہوں نے بی جے پی کی شہ رگ پر انگلی رکھ دی ہے

اجے آشیرواد مہاپرشست

لوک سبھا سکریٹریٹ نے جس عجلت پسندی کے ساتھ راہول گاندھی کو مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے میں سزا سنائے جانے کے 24 گھنٹے کے اندر ان کی رکنیت ختم کرنے کی کارروائی کی، اس سے صرف اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ وایناڈ کے ایم پی کو یہ سزا سیاسی طور پر دی گئی ہے۔
آئین کا آرٹیکل 103 واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی پارلیمنٹ ممبرکی نااہلی کا فیصلہ صدر کی جانب سے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ عام حالات میں اس عمل میں شامل رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے میں کئی ہفتے نہیں تو کئی دن ضرور لگتے ہیں۔
لیکن راہول گاندھی کا معاملہ خاص ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے قد آور رہنما کو یکطرفہ کارروائی کا احساس کروانا ضروری تھا جو نریندر مودی حکومت کی پہچان بن چکی ہے۔
کانگریس نے کہا ہے کہ وہ عدالت میں راہول گاندھی کی سزا اور نااہلی کے خلاف لڑے گی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس پیش رفت نے ایک شکست خوردہ پارٹی میں سڑکوں پر لڑائی لڑنے کے لیے توانائی پیدا کردی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2024 کے لوک سبھا کی انتخابی مہم کی قیادت خود راہول گاندھی کریں گے۔
سال 2014 کے بعد کانگریس کا سب سے بڑا سیاسی پروگرام بھارت جوڑو یاترا تھا، جس کی قیادت راہول گاندھی کی تھی۔ اس کے بعد سے وہ کافی جارحانہ انداز میں نظر آرہے ہیں اور وہ مودی حکومت کی دو کمزور رگوں یعنی راشٹرواد اور بدعنوانی پر مسلسل حملہ کررہے ہیں۔
اپنی تقریروں اور بات چیت میں وہ ہندوستانی سرحد کے اندر لداخ اور اروناچل پردیش میں چینی دراندازی پر مودی حکومت کو گھیر رہے ہیں۔اسی طرح، وہ گزشتہ چند سالوں میں اڈانی گروپ کی ڈرامائی ترقی میں ان کی مبینہ حمایت کے لیے وزیر اعظم پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس نے کہیں نہ کہیں بی جے پی کو ناراض کر دیا ہے۔
یہ دونوں معاملے بی جے پی کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2014 کے بعد سے کبھی بھی نوٹ بندی سے لے کر جی ایس ٹی کے ناقص نفاذ تک حتیٰ کہ بے مثال مہنگائی اور بے روزگاری جیسے ایشوزنے بھی بی جے پی کو پریشان نہیں کیا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہندوتوا اور آمریت کی راہ پر چلنے والی پارٹی ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو مستقبل کی طرف دیکھنے والی پارٹی کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔
لیکن چینی دراندازی اور اڈانی تنازعہ نے بی جے پی کی سب سے بڑی طاقت یعنی راشٹرواد اور بدعنوانی سے پاک ان کے دامن کو نقصان پہنچایا ہے۔ حزب اختلاف ان ایشوزکے بارے میں ایسے وقت میں بات کر رہی ہے جب وزیر اعظم کو ایک ”اسٹیٹس مین“ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے،جس کی مقبولیت ہندوستان کی سرحدوں سے باہر ہے، جو ”فادر آف ڈیموکریسی“ ہندوستان کی رہنمائی کر رہے ہیں اور جو بین الاقوامی تنازعات اور تعطل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے عالمی رہنما ہیں۔ ایسے میں یقینی طور پر لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کی تیاریوں کو نقصان پہنچنے کا قوی امکان ہے۔
لیکن گزشتہ ایک ماہ کے دوران جس طرح راہول گاندھی کو ہراساں کیا جا رہا ہے، اس سے بی جے پی کا ایک اور پہلو ظاہر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بوکھلا گئی ہے۔
سب سے پہلے، اڈانی تنازعہ پر اور مبینہ طور پر ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے لوک سبھا میں کی گئی ان کی تقریر کے کئی حصوں کو ریکارڈ سے خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد بی جے پی نے انگلینڈ میں راہول گاندھی کے ریمارکس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور پھر ان ریمارکس کے لیے ان سے معافی مانگنے میں پوری طاقت لگا دی۔
اس سے پہلے شاذ و نادر ہی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے کسی رکن کو حکمران جماعت کی جانب سے اس طرح کے حملے کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ گاندھی کو معافی مانگے بغیر لوک سبھا میں بولنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ یہ سیاسی رسہ کشی اس حد تک پہنچی کہ حکمران جماعت نے پارلیمانی کارروائی کو معمول کے مطابق نہیں چلنے دیا اور تقریباً ہر روز پارلیمنٹ میں خلل ڈالاگیا، جس کے نتیجے میں اس کی کارروائی بار بار ملتوی ہوتی رہی اور آخر کار بجٹ کو بغیر بحث کے منظور کر لیا گیا۔
اس کے بعد سی جے ایم کورٹ کی سزا آئی، جس کے بعد آناً فاناً میں راہول گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کر دی گئی۔ یہ پہلا موقع ہے جب راہول گاندھی کے حملوں کے جواب میں انہیں پپو کہہ کر ان کا مذاق نہیں اڑایا گیا۔ راہول گاندھی پر مرکوز حملہ اور بالآخر ان کی نااہلی، جبکہ 16 اپوزیشن جماعتیں اڈانی گروپ اور مودی حکومت کی مبینہ ملی بھگت پر مشترکہ پارلیمانی انکوائری (جے پی سی) کا مطالبہ کر رہی تھیں،یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھگوا کیمپ کی جانب سے راہول گاندھی کو خارج کرنے کی مہم بھی مودی کوگمبھیر چیلنج دینے والے کے طور پر ابھرنے سے روکنے کی کوشش کا حصہ تھی۔
مودی نے اپنی تمام تقاریر میں کبھی کسی دوسری اپوزیشن پارٹی کونہیں صرف کانگریس کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صرف کانگریس ہی ہے جس کالوک سبھا کی250 سے زیادہ سیٹوں پر بی جے پی سے براہ راست مقابلہ ہے اور صرف یہی بی جے پی حکومت کو سخت چیلنج دے سکتی ہے۔
راہول گاندھی کو خاموش کرانے کی کوشش کرکے بی جے پی نے ہندوستان کی جمہوریت کے خطرے میں ہونے اور مودی حکومت کے آمرانہ رویے سے عوامی اداروں کے کمزور ہونے کے راہول گاندھی کے بیان کو جواز فراہم کردیاہے۔ راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی جس طرح سے غیر متناسب اور بے وقت حملے کر رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے بالآخر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کامیاب رہی۔
راہول گاندھی کو دی گئی سزا اور پارلیمنٹ کی رکنیت سے ان کی نااہلی کو ان کے اور ان کی پارٹی دونوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ کہا جا سکتا ہے۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس اپنی انتخابی مہم جذباتی اور حقیقی مسئلہ پر چلا سکتی ہے اور ایک گمبھیر متبادل کے طور پر ابھر سکتی ہے۔راہول گاندھی کو دی گئی غیر متناسب سزا نے پارٹی کو ایک ہتھیار دے دیا ہے۔ کانگریس کو اب ووٹروں کو پرجوش اور راغب کرنے اور ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھرنے کے لیے صرف ایک متبادل سیاسی اور اقتصادی نقطہ نظر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
گاندھی کی نااہلی پر کانگریس کو ممتا بنرجی، اروند کجریوال، وائی ایس آر ریڈی سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ ان تمام پارٹیوں کو مرکز کے سیاسی دباو¿ کا سامنا ہے۔ مختلف مسائل پر اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کا کانگریس کے لیے یہ سنہری موقع ہے۔ یہ جماعتیں بھلے ہی انتخابات میں متحدہ محاذ نہ بنا سکیں، لیکن بڑھتی آمریت، مہنگائی، بے روزگاری، اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنانے اور سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے جیسے مسائل اپوزیشن جماعتوں کے لیے ایک بیانیہ تیار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایسے امکانات سے پوری طرح واقف بی جے پی نے پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ کولار میں راہول گاندھی کی تقریر جس میں انہوں نے للت مودی، نیرو مودی پرپہلا حملہ کیا تھا اور ان کا موازنہ وزیر اعظم سے کیا تھا، دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کی توہین کرنے والاتھا اور اس بیان پر انہیں جو سزا دی گئی ہے وہ بالکل جائز ہے۔ کسی اور نے نہیں بلکہ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے راہول گاندھی کو پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے دن یہ بیانیہ پیش کیا، اس وقت جب راہول گاندھی کو مختلف طبقوں سے ہمدردی اور حمایت مل رہی تھی۔
راہول گاندھی اس وقت یقینا ایک کمزور حریف (انڈر ڈاگ) ہیں۔ ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کرنے کی کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت کے پاس انتخابات میں جیت حاصل کرنے اور بھگوا تسلط کو قائم کرنے کے اپنے ایجنڈے کے حصے کے طور پر اداروں اور سب کے لیے یکساں مواقع کا ذرا بھی احترام نہیں ہے۔
یہ پیغام کہ کسی بھی مخالف کو مجرمانہ قرار دیا جائے گا اور یہ معنی نہیں رکھتا کہ یہ مخالفت کوئی صحافی، طالبعلم یا حتیٰ کہ ملک کے اہم ترین سیاسی رہنماو¿ں میں سے کوئی ایک کر رہا ہو- اب یہ واضح ہو گیا ہے۔ اختلافات کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے راہول گاندھی کو دی جانے والی حمایت ہندوستان کے موجودہ سیاسی پولرائزیشن کو مضبوطی سے قائم کرتی ہے۔
راہول گاندھی کے ٹوئٹ اور بیانات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے لڑنے کا جذبہ دکھایا ہے۔ ان کی جماعت کے رہنماو¿ں نے بھی دباو¿ کے سامنے نہ جھک کر اسی طرح کی جرات مندی کا اظہار کیا ہے۔ راہول گاندھی اپنے آپ کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں جسے اقتدار سے کوئی خاص انسیت نہیں ہے۔ ایک صوفی منش لیڈر کی طرح، جو ہندوستان کے تنوع اور اس کے لوگوں کے اتحاد کے تحفظ کے لیے لڑ رہا ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں انہوں نے اپنے اخلاقی عزائم کا اظہار کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کا یہ رخ لوگوں کے سامنے لے جائیں، اس امکان کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ وہ اگلے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔