اعضاء کے عطیہ میں تلنگانہ کا ملک میں پہلا مقام
مرکزی وزارتِ صحت کے مطابق 2024 میں ہر دس لاکھ آبادی پر ملک میں اوسطاً 0.8 اعضاء کے عطیات ریکارڈ کیے گئے، جبکہ تلنگانہ میں یہ شرح 4.88 رہی، جس کی بنیاد پر ریاست نے ملک میں پہلا مقام حاصل کیا۔ اس کامیابی پر نیشنل آرگن اینڈ ٹشو ٹرانسپلانٹیشن آرگنائزیشن (نوٹو) کی جانب سے تلنگانہ کو ایوارڈ بھی دیا گیا۔
حیدرآباد: انسان کی زندگی کے لیے جسم کے اعضاء کا صحیح طور پر کام کرنا ضروری ہے، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ملک میں کئی افراد اہم اعضاء کی ناکامی کے باعث زندگی اور موت کے درمیان جدوجہد کر رہے ہیں۔
اعضاء کی پیوندکاری کے ذریعہ ان کی زندگی میں نئی روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ کسی کے انتقال کے بعد تدفین یا جلانے سے پہلے اگر جسم کے اہم اعضاء عطیہ کر دیے جائیں تو مرنے کے بعد بھی کئی لوگوں کو نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔
مرکزی وزارتِ صحت کے مطابق 2024 میں ہر دس لاکھ آبادی پر ملک میں اوسطاً 0.8 اعضاء کے عطیات ریکارڈ کیے گئے، جبکہ تلنگانہ میں یہ شرح 4.88 رہی، جس کی بنیاد پر ریاست نے ملک میں پہلا مقام حاصل کیا۔ اس کامیابی پر نیشنل آرگن اینڈ ٹشو ٹرانسپلانٹیشن آرگنائزیشن (نوٹو) کی جانب سے تلنگانہ کو ایوارڈ بھی دیا گیا۔
پچھلے سال ریاست میں 188 برین ڈیتھ ڈونرس سے 725 اعضاء حاصل کر کے کئی مریضوں کو نئی زندگی دی گئی۔ تاہم اس عمل میں زیادہ تر نجی اسپتال سرگرم رہے، جبکہ سرکاری اسپتالوں کا کردار محدود رہا۔
عثمانیہ اور گاندھی جیسے بڑے سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی معاملات زیادہ آتے ہیں۔ کئی مریض برین ڈیتھ کا شکار ہوتے ہیں، لیکن سہولیات کی کمی کے باعث اعضاء کے عطیہ کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک برین ڈیتھ شخص کے اعضاء سے سات افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
قانون کے تحت جس اسپتال میں برین ڈیتھ ہوتی ہے، وہاں تین اعضاء فراہم کیے جاتے ہیں جبکہ باقی ضرورت مند اسپتالوں کو دیے جاتے ہیں۔ مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث سرکاری اسپتال اکثر یہ اعضاء نجی اسپتالوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
اعضاء کی پیوندکاری کے لیے خصوصی آپریشن تھیٹرس، ماہر سرجن، معاون عملہ اور مخصوص وارڈس درکار ہوتے ہیں۔ ایک سرجری کے لیے تقریباً 30 سے 40 ماہرین اور عملے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری اسپتالوں میں بنیادی ڈھانچہ اور ماہرین کی تعداد بڑھائی جائے تو وہاں بھی اعضاء کے عطیہ میں اضافہ ممکن ہے۔
ملک میں اعضاء کے عطیہ کو فروغ دینے کے لیے وسیع پیمانہ پر آگاہی مہم چلانا ضروری ہے۔ حکومت کو اس معاملہ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے آگے آنا ہوگا۔ سماجی رہنما، مذہبی شخصیات، سیاسی قائدین اور مشہور شخصیات کو بھی ہر موقع پر اعضاء کے عطیہ کی اہمیت اجاگر کرنی چاہیے۔ ہر سال ملک میں لاکھوں سڑک حادثات ہوتے ہیں، جن میں کئی افراد برین ڈیتھ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کے خاندان اعضاء عطیہ کریں تو ملک میں اعضاء کی کمی ختم ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کو اعضاء کی ترسیل کو مفت کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔
سرکاری اسپتالوں میں اعضاء کے عطیہ کو بڑھانے کے لیے گاندھی اسپتال میں ایک خصوصی مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔ اصل عمارت کی آٹھویں منزل پر خصوصی آپریشن تھیٹرس اور وارڈس تیار کیے جا رہے ہیں، جس پر 35 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ یہاں گردے، پھیپھڑے، دل، جگر اور دل کے والوس سمیت تمام اعضاء کی پیوندکاری ایک ہی جگہ ممکن ہوگی۔ تاہم اگر یہ مرکز جلد مکمل ہو جائے تو غریب مریضوں کو مفت خدمات فراہم کی جا سکیں گی۔