طنز و مزاحمضامین

بات ہریس کی …

حمید عادل

ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر نکڑ پرہریس کی دیگ ، ہر بازار میںہریس کے چرچے اور ہر مکان میںہریس کی ڈش ہوتی ہے…. قصہ مختصر یہ کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری ’’ ہریس‘‘ کی ہے… گھر کے جھروکے سے ذرا باہر جھانکیں تو ہمیںہریس کی بھٹی کہیں نہ کہیں نظر آہی جاتی ہے۔ ماہ رمضان میں روایتی طورپرجو حضرات ہریس تیار کرتے آئے تھے ،وہ تو خیر سے آج بھی ہریس کی دیگ کے ساتھ نظر آرہے ہیں لیکن اس بار نوواردہریس بنانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔یہ حضرات ہریس کو کچھ اس طرح پیش کررہے ہیں جیسے انہیں اس میدان میں برسوں کا تجربہ ہے یا پھرہریس ان ہی کے گھرانے کی دین ہے ۔ ہمارے مکان کے بالکل روبروکرانہ دکان کے چنو میاں چکن کی ہریس فروخت کررہے ہیںتو پان شاپ کے چاند پاشاہ بیف کی ہریس نہایت ارزاں داموں میں فروخت کرتے نظر آرہے ہیں ۔ دو قدم آگے بڑھیں تو ’’ دو قدم فٹ ویر‘‘ کے گورے بھائی دو گوشتہ ہریس فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ احوال شہر کی کسی ایک گلی کا نہیں ہے بلکہ سارے شہر کا ہے، یعنی اب مسجد سے گھر تک کا سفر روزہ داروں کے لیے انتہائی صبرآزما ثابت ہورہا ہے۔ راستے میں جگہ جگہ ہریس کی بھٹیوں پر قرینے سے جمے ہوئے کٹورے اورہریس کی دیگ سے آنے والی مخصوص مہک نفس کا کڑا امتحان لے رہی ہے ۔ ایسے میںبیچارہ روزہ دار آخر کرے تو کیا کرے ؟افطار کے بعد اس کے قدم کہیں نہ کہیں بہک ہی جاتے ہیں اور وہ بے ساختہ کسی ہریس کی دکان پر پہنچ ہی جاتا ہے ۔ مذکورہ حضرات یعنی چنو میاں ،گورے بھائی اور چاند پاشاہ سے ہماری پرانی جان پہچان ہے ،جس کا وہ بڑے سلیقے سے فائدہ بھی اٹھارہے ہیں۔ہر روز چنو میاں کے ہاں چکن ہریس کھانے کے بعد ہمیں چاند پاشاہ کی بیف ہریس بھی کھانا پڑرہا ہے اور اگر ان دونوں حضرات سے کسی طرح سے بچ بچاکر آگے بڑھ جائیں تو پھر گورے بھائی سے ہمارا بچنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے ۔چونکہ وہ ٹریفک پولیس کے ریٹائرڈ انسپکٹر ہیں ، اس لیے موصوف نے غضب کی نظر پائی ہے … جیسے ہی ہمیں دور سے آتا ہوادیکھ لیتے ہیں ،ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور وہ ہریس کی بھٹی سے اتر کر چالان کرنے کے انداز میں ہماری جانب لپکتے ہیں اور پھر ہمیں دبوچ کرکم از کم دو کٹورے ہریس ہمارے حلق میں انڈیلے بغیر گھر جانے نہیں دیتے…ستم در ستم یہ کہ ہریس کی قیمت ادا کرنے کے بعد بھی مذکورہ بالا تمام حضرات ہمیں ان کی ہریس کی جھوٹی تعریف کرنے پر مجبور کر تے ہیں…
اب تو یہ حالت ہے کہ گلی کوچوں میںجا بجاہریس تیار کرنے والے حضرات اپنے سامنے سے گزرنے والے روزہ داروں کو حسرت بھری نگاہوں سے تاک رہے ہیں ،گھور رہے ہیں ، جان پہچان کے اگر اصحاب نظر آجائیں تو مختلف فقرے کس کر انہیں اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مستقبل قریب کے تعلق سے مشکوک حیدرآبادی کا خیال ہے ’’عین ممکن ہے کہ ہریس فروخت کرنے والوں کاخلوص اپنی جان پہچان والے احباب کے تئیں اس قدر بڑھ جائے کہ وہ انہیںزبردستی اپنی گود میں اٹھا اٹھا کر ہوٹل یا دکان کے اندر لے جائیں اورہریس کھلا کر ہی چھوڑیں!‘‘
نحیف و نزار حضرات کے لیے ہریس کو انتہائی قوت بخش ڈش قرار دیا جارہا ہے ، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو ایک ماہ مسلسل ہریس کھائے گا، اس کی دنیا ہی بدل جائے گی۔مشکوک حیدرآبادی کا تو کہنا ہے کہ عین ممکن ہے مستقبل قریب میں نحیف و نزار حضرات کو تندرست و توانا بنانے کی گیارنٹی کے ساتھ نیم حکیم ، ہریس کو حلوے کی شکل دے کر سال بھرفروخت کرنا شروع کر دیں…
ہمارے پڑوسی بھکو پہلوان کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے جاریہ ماہ رمضان اپنے پٹھوں کو لے کر ہریس تیار کرنا شروع کردیا ہے ۔ بیانر پر انہوں نے بجائے کسی بانگ دیتے تندرست و توانا مرغ یا پھرخم دار سینگ والے فربہ قسم کے پوٹلے کو پیش کرنے کے ایک دیو ہیکل پہلوان کو اتارا ہے اورہریس کا نام’’دو گوشتہ پہلوان چھاپ ہریس !‘‘ رکھ چھوڑا ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی قوت بخشہریس کے ذریعہ شہر بلکہ دنیا سے دبلے پتلے افرادکا نام و نشان مٹا دیں گے… ان کا نعرہ بھی سیاست دانوں کے لگائے گئے ’’غریبی ہٹاؤ‘‘ کے پرفریب نعرے کی مانندلگتاہے جس میں پتا ہی نہیں چلتا کہ حکومت غریبی ہٹانا چاہتی ہے یا غریبوں کو…
ہریس کی جا بجا بھٹیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شہر حیدرآباد ’’ہریس آباد‘‘میںتبدیل ہوکر رہ گیا ہے ۔اگر کوئی بیرون یا اندرون ملک سیاح ہریس کے اس موسم میں حیدرآباد آجائے تو وہ ًیہی سمجھے گا کہ حیدرآبادی صرف ہریس کھاکر زندہ ہیں اور وہ اپنے وطن لوٹ کرہریس اورہریس کے دیوانوں کی داستانیں اپنے دوست احباب کو خوب مزے لے لے کر سنائے گا۔ اب تویہ بھی خدشہ لاحق ہوگیاہے کہیں غیر مسلم حضرات یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ مسلمان ،روزہ محض ہریس کھانے کے لیے ہی رہتے ہیں یا یہ کہ جب تک ہریس نہ کھالیں ان کا روزہ مکمل ہی نہیں ہوتا…
جہاں جہاںہریس کی معروف دکانیں اور ہوٹل ہیں ، وہاںوہاں پرہریس کے شیدائیوں کا ہجوم بری طرح سے امڈ پڑتاہے ، کسی کو کسی کا ہوش نہیںرہتا،ہر کوئی ہریس کا کٹورہ لیے چٹخارے لیتانظر آتا ہے ۔ ہریس کے بعض شوقین ایسے بھی ہیں جو دور دراز کی مسافت طے کرکے متعلقہ ہوٹل تک پہنچ ہی جاتے ہیں او رجس مقام کی ہریس انہیں پسند آجاتی ہے پھروہ کسی دوسری جگہ کا رخ نہیں کرتے۔ چمن بیگ نے تو رمضان کے تیس روزوںکا کچھ اس طرح شیڈول مرتب کیا ہوا ہے کہ وہ ہریس کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہر روزایک نئی ہوٹل کا رخ کرتے ہیں ۔ ایک کٹورہ ہریس سے ان کا دل بالکل نہیں بھرتا بلکہ وہ چار چھ کٹورے ہریس حلق سے اتارنے تک ڈکار بھی نہیں لیتے…
چکن،بیف اور مٹن ہریس کے اپنے اپنے ذائقے ہیں، بیف ہریس میں ہڈیوں کی کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی البتہ مٹن ہریس کی پہچان یہی ہے کہ چھوٹی چھوٹی ہڈیاں بھی شامل ِ ڈش ہوتی ہیں، جو غالباً اس لیے شامل کی جاتی ہیں تاکہ لوگ خواہ مخواہ اس قسم کے غیر ضروری وسوسوں کا شکار نہ ہوجائیں کہ جوہریس وہ کھارہے ہیں آیاوہ بکرے کے گوشت کی ہے بھی یا نہیں! دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہریس نوش فرماتے ہوئے ہڈیاں نکالنے میں اچھا خاصا وقت صرف ہوجاتا ہے جس سے ہریس کھانے والے کو یہ ملال نہیں ہوتا کہ ڈھائی تین سو روپئے کی ہریس وہ منٹ دومنٹ میں چٹ کرگیا… جب کہ ہریس تیار کرنے والوںکا یہ بھی خیال ہوسکتا ہے کہ جس طرح مچھلی کھانے کا مزہ اس کے کانٹے نکالنے میں پوشیدہ ہے، ٹھیک اسی طرح بکرے کے گوشت کی ہریس کھانے کا حقیقی ذائقہ بھی وقفے وقفے سے ہڈی کی کرچیاںمنہ سے نکالنے میں ہے….لیکن جناب، کباب میں ہڈی کی طرح ہمیںہریس میں ہڈی بھی سخت ناپسند ہے…
ہریس کا جادو تو اب اس قدر سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ افطارکے بعد عشا یاتراویح کے تذکرے کم ہوتے لگے ہیں اورہریس کا ذکرزیادہ…جب بھی دوست آپس میںملتے ہیں ،ہریس کے موضوع پر تبادلہ ٔ خیال ضرورہوتا ہے کہ کہاںپرعمدہ ہریس دستیاب ہے اورکہاں پر اس سال ہریس کا ذائقہ پھیکا پڑ چکا ہے ۔یعنی لوگ جب بھی ملتے ہیںہریس کو لے کر گرما گرم بحث چھڑہی جاتی ہے ۔ ایسے میں غلط مشورے دینے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی، اسی طرح کے ایک مشورے کی زد میں آکر ہم نے شہر کے ایک شادی خانے میں منائے جانے والے ہریس فیسٹول کا رخ کیا تھا۔ مذکورہ شادی خانے پرہم پہنچے تو گیٹ پرآویزاں بیانر پر ’’ہریس، ہریس، ہریس‘‘ لکھا پایا۔بیانر پر تین بار لفظ ’’ہریس‘‘تحریر کرکے غالباًہریس تیار کرنے والے صاحب یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ ہم سے اچھا کون؟ اندر پہنچے تو دیکھا کہ انتہائی والہانہ انداز میںہریس کے شیدائیوں کا استقبال کیا جارہا ہے، نہایت سلیقے سے میز اور کرسیاںسجائی گئی ہیں،ہر میز پر جھومر جھول رہے ہیں، ویٹر حضرات بھی اتنے با اخلاق اور دریا دل ہیں کہ آپ سنگل کا آرڈر دیں تو وہ دوڑ کر فل ہریس کا کٹورہ لے کرپیش کر رہے ہیں البتہ کٹورے میںہریس بس اتنی کہ سنگل کاگمان ہو… یعنی سنگل ہریس کی قیمت فل وصول کی جارہی تھی ۔اس تعلق سے ہم نے استفسار کیا تو جواب ملا ’’ جناب! شہر میں جہاں کہیں ہم سے کم دام میںہریس فروخت ہورہی ہے، اس کے تعلق سے توہم نہیں جانتے لیکن ہم اپنی ہریس کے بارے میںاتنا ضرور کہیں گے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ نہیں ہے!‘‘حالانکہ اس اصلی ہریس کا ذائقہ بھی کم قیمت میں ملنے والی ہریس سے بہتر نہ تھا…
’’نام بڑے، درشن چھوٹے‘‘ والی ہریس کھانے کے بعد جس دوست نے ہمیں مذکورہ ہریس کھانے کا مشورہ دیا تھا، اس سے ہم نے ربط قائم کیا اور شکایتی انداز میں ہریس کی بدمزگی کا ذکر کیاتو اس نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ اسے بھی کسی نے شرارتاً وہاں بھیجا تھا لہٰذا اس نے بھی ہم سے وہی شرارت کی، جس سے اس کے کلیجے کو ٹھنڈک مل گئی…
ایک وقت تھا جب ہریس تیار کرنے والے حضرات لفظ ’’ اصلی ‘ ‘ پر اتنازور نہیں دیا کرتے تھے، جتنا وہ آج دے رہے ہیں۔بلکہ وہ اصلی کی بات ہی نہیں کرتے تھے ،لیکن آج کل وہ مذکورہ لفظ پر اتنا زیادہ زور دینے لگے ہیں کہ ملاوٹ کا شبہ ہونے لگتا ہے ۔ اصلی مغزیات، اصلی گھی تو چھوڑئیے کچھ حضرات جوش میں آکر ’’ اصلی پوٹلے‘‘ کے گوشت کی باتیں اپنے بیانر پر کرنے لگے ہیں… اصلی اور نقلی توانسان ہوسکتاہے ، پوٹلے کیسے اصلی اور نقلی ہوئے،یہ وہی جانیں… گیہوں کے تعلق سے بھی لفظ ’’شربتی‘‘ کا استعمال کرنا ہریس تیار کرنے والے حضرات بالکل نہیں بھولتے… جب کہ انہیں لفظ ’’ اصلی‘‘ پر اس قدر زور دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔کیوںکہ ہریس ایک ایسی گول مٹول اور پیچیدہ سی ڈش ہے کہ جس میں شامل اجزا کے اصلی یا نقلی ہونے کا اندازہ لگانا ایک عام آدمی کے لیے انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے… پھر بھی کئی ہریس تیار کرنے والوں کا یہ دعویٰ بھی نظر سے گزر چکا ہے کہ ہریس میں شامل گوشت کی ملاوٹ کو ثابت کرنے پر لاکھوں روپئے انعام دیا جائے گا… چنانچہ ہماری دلچسپی کبھی کبھی ہریس کھانے سے زیادہ اس بات پر مرکوز ہوکر رہ جاتی ہے کہ کیوں نہ ہم بھی آم کھانے کی بجائے پیڑگننا شروع کردیں،یعنی ہریس میں شامل گوشت کی ملاوٹ ثابت کرنے کے چیلنج کو قبول کر ہی لیں لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے… کیوںکہ ہم جس کسی معروف ہوٹل کاہریس کا نسخہ لے کرکسی لیباریٹری سے جانچ کے لیے رجوع ہوں گے،ہریس کے نسخے کی جانچ کرکے ہمیں اس میں شامل اجزا کی رپورٹ دینے کے بجائے ،ہریس کا وہ نسخہ ہی لیباریٹری کے احباب چٹ کرجائیں گے… کیوںکہ ہریس ہماری نس نس میں شامل ہوچکی ہے ،ہریس کا بھلا کون حریص نہیں!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰