دہلی

دفعہ 370 کی برخاستگی پر بحث مکمل‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

گزشتہ 16 دن کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی‘ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا‘ سینئر وکلاء ہریش سالوے‘ راکیش دیویدی‘ وی گری اور دیگر کی دلائل کو سنا۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کے دن دفعہ 370کی برخاستگی کو چیلنج کرتی درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا۔ دستور کی اِس دفعہ کے تحت سابق ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی موقف حاصل تھا۔

متعلقہ خبریں
انڈیا اتحاد دہشت گردی کا حامی اور دستور کا مخالف : اسمرتی ایرانی
بی جے پی میں دستور بدلنے کی ہمت نہیں: ر اہول گاندھی
مہذب سماج میں تشدد اور دہشت گردی ناقابل قبول: پرینکا گاندھی
اورنگ آباد اور عثمان آباد کے ناموں کی تبدیلی کے خلاف عرضیاں ہائی کورٹ میں خارج
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی 5 رکنی بنچ نے 16 دن کی ہنگامی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھا۔ بنچ نے جس میں چیف جسٹس کے خلاف جسٹس سنجے کشن کول‘ جسٹس سنجیو کھنہ‘ جسٹس بی آر گوائی  اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل ہے‘ سماعت کے آخری دن سینئر وکلاء کپل سبل‘ گوپال سبرامنیم‘ راجیو دھون‘ ظفر شاہ‘ دشینت دوے اور دیگر کے موقف کو سنا۔

 ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کہا کہ درخواست گزاروں کا کوئی وکیل اگر تحریری شکل میں کچھ کہنا چاہتا ہے تو وہ آئندہ 3 دن میں ایسا کرسکتا ہے۔ تحریری بحث 2 صفحات سے زیادہ نہ ہو۔

گزشتہ 16 دن کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی‘ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا‘ سینئر وکلاء ہریش سالوے‘ راکیش دیویدی‘ وی گری اور دیگر کی دلائل کو سنا۔

وکیلوں نے مرکز کے 5  اگست 2019کے فیصلہ کے دستوری جواز‘ جموں وکشمیر تنظیم ِ جدید قانون کے جواز‘ جموں و کشمیر میں 20 جون 2018 کو گورنر راج کے نفاذ‘ 19 دسمبر 2018 کو سابق ریاست میں صدر راج لاگو کئے جانے اور 3 جولائی 2019کو اس میں توسیع کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی۔

 دفعہ 370 کی برخاستگی کو چیلنج کرتی کئی درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل ہوئی تھیں جنہیں 2019میں دستوری بنچ سے رجوع کیا گیا تھا۔ 5  اگست 2019 کو مرکز نے سابق ریاست جموں وکشمیر کو اس کے خصوصی موقف سے محروم کرکے 2 مرکزی زیرانتظام علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ میں بانٹ دیا تھا۔