دنیا کی جو بڑی طاقتیں اسلامی نظام کو ختم کرنا چاہتی تھیں اُن کے رخ میں نرمی آئی: مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب، ترکی، وسط ایشیاء، روس، چین وغیرہ اور دیگر ممالک کا جو بلاک بنا ہے اس سے جہاں مغربی ممالک کی مسلم ممالک پر اجارہ داری ختم ہوگی وہیں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا موقع بھی ملے گا۔
نئی دہلی: مسلمانوں نے انتہائی برے حالات کا سامنا اپنی حکمت عملی، دانائی، تحمل و تدبراورشریعت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کیا ہے اور جو طاقتیں اسلام اور مسلمانوں ختم کرناچاہتی تھیں وہ یا تو مٹ گئیں یا ان کے رخ میں نرمی آئی۔
امیرالہند مولاناسید ارشد مدنی نےامارت کانفرنس کے اختتام پر اپنے ایک بیان میں شرعی اصولوں کو اسلام کی مضبوط بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں سے مایوس اور احساس کمتری کا شکار ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے،ہر دور میں ایسا ہوا ہے،مگر اسلام کی حقانیت ہمیشہ غالب رہی ہے۔
کمیونزم کے عروج کے دور میں روس،وسط ایشیا میں اسلام اور اسلامی نظام کو ختم کرنا چاہتا تھا،روس کے اندر بہت سی ریاستوں میں اسلامی نظام کو اپنی دانست میں ختم بھی کردیا تھا،لیکن عجیب بات ہے کہ افغانستان جیسے غریب اور مفلوک الحال ملک میں پھنس کر وہ خود ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ پچھلے دنوں مغربی ممالک میں جب قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی تو روس کے صدر نے ایک مسجدمیں جاکر قرآن کو سینے سے لگالیا۔اس کی تصویریں پوری دنیا میں وائرل ہوئیں۔یہ خدا کی قدرت کا نظام ہے جو اسلام کو مٹانا چاہتے تھے آج وہی اسلام کے محافظ بنتے نظر آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح امریکہ جو دنیا کی سپر پاور طاقت تھی افغانستان پر قابض ہوا اور سالوں تک افغانیوں سے جنگ لڑتا رہا لیکن پھر خائب و خاسر ہوکر اسے بھی بھاگنا پڑا، اس کے بعد ایک امیرالمومنین کی ماتحتی میں وہاں اسلامی نظام قائم ہوگیا،اب افغانستان ترقی کررہا ہے اور دنیا میں اس کی کرنسی کی قدر میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلی ہماری نظر میں نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ کئی معنوں میں بہت اہم ہے۔
یک محوری دنیا میں اب تک زیادہ تر اسلامی ممالک کا جھکاؤ امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف تھا لیکن حالیہ دنوں میں سفارتی سطح پر جو حیر ت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،وہ ایک بدلی ہوئی سوچ اور حکمت عملی کا مظہر ہے۔
پچھلی دہائیوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ مغربی طاقتوں نے مسائل کو سلجھانے کے بجائے اسلامی ممالک کو نت نئے مسائل میں الجھائے رکھنے کی در پردہ کوشش زیادہ کی۔اپنی بات کو آگے بڑھا تے ہوئے انہوں نے کہاکہ اب عالمی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔
پہلے ایشیا کے جتنے بھی مسلم ممالک تھے یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ سب امریکہ اور مغربی ممالک کے رحم و کرم پر ہیں لیکن اج صورتحال یہ ہے کہ وہ سارے کے سارے اسلامی ممالک روس اور چین کی طرف جھکے ہوئے نظر آرہے ہیں اورنوبت یہاں تک کو پہنچی سعودی عرب کا چین سے لاکھوں ملین ڈالر کا معاہدہ ہو چکا ہے یہ تمام کی تمام صورتیں یہ بتا رہی ہیں کہ دنیا کا جو منظر نامہ ہے وہ تبدیل ہو رہا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب، ترکی، وسط ایشیاء، روس، چین وغیرہ اور دیگر ممالک کا جو بلاک بنا ہے اس سے جہاں مغربی ممالک کی مسلم ممالک پر اجارہ داری ختم ہوگی وہیں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا موقع بھی ملے گا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ اسلامی ممالک کے تعلقات سے ایغور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے ان شاء اللہ۔یہ اللہ کی قدرت ہے جو لوگ اسلامی نظام کا نام ونشان مٹادینا چاہتے تھے اب وہ اسکے محافظ بنتے نظر آرہے ہیں،اس لئے ہمیں کمتری کے احساس سے باہر نکلنا ہوگا،اسلامی تعلیمات کو اپنے کرداروعمل میں ڈھال کر ایک اچھا مسلمان اور اچھا انسان بننا ہوگا اور یہی صورت ہم دوسروں کے لئے مثالی اور قابل تقلید بن سکتے ہیں۔
مولانا مدنی نے شرعی عدالت اور دارالقضا کے قیام پر زور دیتے ہوئے کہاکہ جن علاقوں میں ابھی تک محاکم شرعیہ قائم نہیں ہوسکے ہیں وہاں امارت شرعیہ کے دستور کی روشنی میں محکمہ شرعیہ ضرور قائم کئے جائیں۔
اور مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے معاملات کو حل کرانے کے لئے محکمہ شرعیہ کا رخ کریں اور حکومت کو مسلمانوں کے عائلی مسائل میں مداخلت کرنے کا موقع فراہم نہ کریں۔نظام قضا اورا مارت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مدنی نے کہاکہ مسلم دور حکومت میں نظام قضا قائم تھا لیکن جب انگریزوں کی حکومت آئی اور انہوں نے اپنا نظام قائم کیا تو اس کے حل کے لئے ہندوستان جیسے مختلف ممالک میں کوششیں کی گئیں اور سب سے پہلے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ہندوستان میں امیر منتخب کرنے لئے فتوی جاری کیا۔
جمعیۃ علمائے ہند نے اپنے متعدد اجلاس میں اس ضمن میں تجاویز منظور کی ہیں۔انہوں نے کہاکہ سردست صوبائی امارتوں کے زیر انتظام سو سے زائد محاکم شرعیہ سرگرم عمل ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا خوانگی نظام درست ہوجائے تو ہمارے بہت سے مسائل دور ہوسکتے ہیں بلکہ بعض معاملوں میں اسلام اور شریعت کو لے کر بعض حلقوں کی جانب سے جس طرح انگلیا ں اٹھتی ہیں اس کا بھی تدارک ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ان اصولوں کو اپنی عملی زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے،ایک مثالی اور صحت مند معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور شرعی قوانین ایک بااصول اور مثالی زندگی گزارنے کا سبق دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری تنزلی اور پسپائی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات اور شرعی احکامات سے خود کو دور کرلیا ہے۔