شاہ جہاں کے تاج محل تعمیر کرنے کا سائنسی ثبوت موجود نہیں!
سپریم کورٹ میں تاج محل کی حقیقی کہانی کا مطالعہ کرنے اور تنازعہ کے خاتمہ اور اس کی تاریخ کی وضاحت کے لئے ایک ’حقائق کا پتہ چلانے والی کمیٹی‘ کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔
حیدرآباد: سپریم کورٹ میں تاج محل کی حقیقی کہانی کا مطالعہ کرنے اور تنازعہ کے خاتمہ اور اس کی تاریخ کی وضاحت کے لئے ایک ’حقائق کا پتہ چلانے والی کمیٹی‘ کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔
درخواست گزار ڈاکٹر رجنیش سنگھ کے مطابق اگرچہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ تاج محل کی تعمیر مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی شریک حیات ممتاز محل کے لئے 1631 تا 1653 کے دوران 22 برسوں میں تعمیر کروایا ہے مگر اس کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔
درخواست گزار الہ آباد ہائی کورٹ کے 12 /مئی کو صادر احکام کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوا ہے جس میں ان کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا گیا تھا کہ یہ امور عدالتی تصفیہ کے لائق نہیں ہیں۔
ایڈوکیٹ سمیر شری واستو کے ذریعہ داخل کردہ درخواست کے مطابق قانون حق آگہی کے تحت کئے گئے سوال پر این سی ای آر ٹی نے انہیں جواب دیا کہ شاہ جہاں کی جانب سے تاج محل تعمیر کئے جانے سے متعلق کوئی اصل ذریعہ موجود نہیں ہے۔
درخواست گزار نے آر ٹی آئی کے تحت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیاکے روبرو ایک اور سوال داخل کیا مگر کوئی تشفی بخش جواب موصول نہیں ہوا۔ درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے تاج محل میں 22 مقفل کمروں کو مطالعہ اور مشاہدہ کے لئے کھولنے کی ہدایت دینے کی بھی استدعا کی تھی۔
انہوں نے قانون قدیم و یادگار ومقامات و باقیات آثارقدیمہ (قومی اہمیت کے حامل اعلامیہ)1951 کے تحت مغل حملہ آوروں کی جانب سے تعمیر کردہ یادگاروں کو ’تاریخی یادگار‘ قرار دئیے جانے کو بھی چالینج کیا تھا تاہم سپریم کورٹ میں داخل کردہ خصوصی مرافعہ میں درخواست گزار نے بیان کیا کہ وہ صرف اپنے پہلے مدعا پر زور دے رہے ہیں کہ تاج محل کی’حقیقی تاریخ‘ مطالعہ کرنے کے لئے ایک’حقائق کا پتہ چلانے والی کمیٹی‘ تشکیل دی جائے۔
درخواست گزار نے ادعا کیا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا تاج محل کی صحیح تاریخ پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہے جو ایک عالمی ثقافتی ورثہ ہے۔
یہ ایک دیرینہ قانون ہے کہ دستور ہند کی دفعہ 19(1)(a) کے تحت حق آگہی بنیادی حق کا ایک پہلو ہے اور اگر سائنسی توضیح کے بغیر یا کسی ثبوت کے بغیر معلومات فراہم کی جاتی ہیں تو یہ دستور ہند کی دفعہ 19(1)(a) کے تحت بنیادی حق کے مغائرہے۔