حیدرآباد

معاشرے میں شراب و منشیات کا استعمال ترقی یافتہ ہونے کی علامت بن گیا ہے جو قابل مذمت ہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان

مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیت علماء تلنگانہ و آندھراپردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مذہب اسلام میں وہ تمام چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں جن سے انسانی فطرت بغاوت کرتی ہے اور بھی بہت سی چیزیں جو انسان کی جسمانی و روحانی صحت کے لیے ضرر رساں اورنقصان دہ ہیں، خدائے حکیم و خبیر نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

حیدرآباد: مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیت علماء تلنگانہ و آندھراپردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مذہب اسلام میں وہ تمام چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں جن سے انسانی فطرت بغاوت کرتی ہے اور بھی بہت سی چیزیں جو انسان کی جسمانی و روحانی صحت کے لیے ضرر رساں اورنقصان دہ ہیں، خدائے حکیم و خبیر نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

متعلقہ خبریں
مومن اور متقی پرہیز گار ہوا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نوازیں گے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد

اللہ رب العزت نے ماکولات کے ساتھ ساتھ مشروبات میں بھی ہمارے لئے ان مشروبات کو ہی حلال کیا ہے جو طیبات و پاکیزہ، مرغوب، خوشگوار اور نفع بخش ہیں۔

مثلاً حلال چوپایوں کا دودھ، پھلوں کا رس، اچھے سے اچھے مشروبات،نفیس سے نفیس عرقیات وغیرہ۔ گندی، ناپاک اور خبیث ترین مشروبات جوانسانیت کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں حرام قرار دیا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اس لئے شراب کی روحانی و جسمانی مفاسد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے استعمال سے کلی طور پر منع کیا ہے اور اسے تمام برائیوں کی اصل اور تمام گندگیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی برائی اور اس کے مفاسد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے نقصانات سے اپنی امت کو متنبہ وآگاہ فرمایا ہے اور اس کو ہر برائی کی کنجی قرار دیا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ مجھے میرے محبوب سیدنا الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی ہے کہ کبھی بھی شرک نہ کرنا اگر چہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں اور تجھے جلادیا جائے اور جان بوجھ کر نماز نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی وہ اللہ کے ذمہ سے بری ہو گیا اور شراب مت پینا کیوں کہ وہ ہر برائی کی کنجی ہے۔

بڑے افسوس کا مقام ہے آج نوجوان نسل کی ایک بڑے تعداد منشیات کی عادی ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں اور نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال فیشن بن گیا ہے۔ تمباکو، چرس، شیشہ، افیون کے ساتھ ”آئس“ پینے کا رجحان نہ صرف لڑکوں ہی میں نہیں لڑکیوں میں بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ ان کے نقصانات سے بے خبر بطورِ فیشن اور خود کی تسکین کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

عموماً نوجوان اپنے دوستوں یا ملنے جلنے والوں کی ترغیب پر نشہ شروع کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ نیا کر رہے ہیں لیکن ان کو یہ شعور نہیں ہوتا کہ ان کا یہ قدم اُنہیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ امیر ترین سوسائٹی کے نوجوان آئس کرسٹل، حشیش، ہیروئن کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات کا استعمال کررہے ہیں، جبکہ مڈل کلاس کے نو جوان چرس، پان، گٹکا، نسوار اور سگریٹ وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں۔

زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق پڑھے لکھے طبقے سے ہے اور یہی نوجوان ملک کا اثاثہ کہلاتے ہیں۔ جن اداروں میں مستقبل کے معمار تیار ہوتے ہیں، جہاں سے ملک کا روشن مستقبل پروان چڑھتا ہے، وہاں اب منشیات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جن سے ان کی تعلیم اور کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔

لڑکیوں میں بھی شیشہ کا استعمال اب ایک فیشن بن گیا ہے۔ اب تو ہمارے معاشرے میں شراب اور دیگر منشیات کا استعمال ترقی یافتہ ہونے کی علامت بن گیا ہے۔ امیروں اور رئیسوں کی پارٹیوں میں جب تک شراب کا دور نہ چلے ان کی محفلیں ادھوری رہتی ہیں۔ نئی نسل تو طرح طرح کی نشہ خوری میں گرفتار ہے۔

اسکولوں اورکالجوں کے طلبہ وطالبات نہایت تیزی کے ساتھ شراب کی عادی ہو رہی ہیں، جس سے جہاں ان کے اخلاق و کردار اور اعلیٰ قدریں پامال اور مجروح ہو رہی ہیں، وہیں ان کی صحت نہایت تیزی کے ساتھ بگڑ رہی ہے۔ ساتھ ہی ان کے اندر خودغرضی، غفلت، غصہ، اکتاہٹ، تناؤ و تنہائی پسندی اور جنسی بے راہ روی عام بات ہوگئی ہے۔

سچ کہیے تو موجودہ دور بالکل زمانہ جاہلیت جیسا ہوگیا ہے۔ ایسے نازک حالات میں اگر ہم نے اپنے خیر امت ہونے کی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کی اور نشہ خوری کی اس آگ کو نہ بجھایا تو وہ وقت دور نہیں کہ اس کی چنگاری ہمارے دامن کو بھی خاکستر کر دے گی۔