وقف ترمیمی بل، طویل مباحث کے بعد لوک سبھا میں منظور
لوک سبھا میں 12 گھنٹے کی طویل گرماگرم مباحث کے بعد وقف (ترمیمی) بل۔2024 اور مسلمان وقف (تنسیخ) بل نصف شب منظور کر لیے گئے۔ وزیر پارلیمانی امور کرن رجیجو نے آج یہ بل لوک سبھا میں پیش کیا تھاجس کو288-232 کے فرق سے منظور کرلیا گیا۔

حیدرآباد: لوک سبھا میں 12 گھنٹے کی طویل گرماگرم مباحث کے بعد وقف (ترمیمی) بل۔2024 اور مسلمان وقف (تنسیخ) بل نصف شب منظور کر لیے گئے۔ وزیر پارلیمانی امور کرن رجیجو نے آج یہ بل لوک سبھا میں پیش کیا تھاجس کو288-232 کے فرق سے منظور کرلیا گیا۔
مباحث نہایت ہی دقیق اور سنجیدہ نوعیت کے تھے تاہم ایوان میں عددی قوت ہی غالب رہی اورحکومت کو حاصل اکثریت کے بل بوتے پر بل کو منظوری دے دی گئی۔ یہ بل رات تقریباً 2 بجے منظور کرلیا گیا۔ یہ بل توقع ہے کہ کل یا پرسوں راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔ ترمیم شدہ بل میں متنازع شقوں میں سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈز میں دو غیر مسلم ارکان کی لازمی شمولیت شامل ہے۔
اس کے علاوہ صرف وہی افراد وقف کے لیے جائیداد عطیہ کر سکیں گے جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ مجوزہ قانون کے تحت اگر کوئی سرکاری زمین وقف قرار دی گئی تو وہ اوقافی ملکیت نہیں رہے گی بلکہاس کی ملکیت کا تعین مقامی کلکٹر کرے گا۔اپوزیشن نے جس کا کہنا ہے کہ بل کی جانچ کے لیے بنائی گئی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے ان کی تجاویز پر غور نہیں کیا اسے غیر آئینی قرار دیا۔ کانگریس نے الزام لگایا کہ حکومت اقلیتوں کو ’بدنام اور ان کے حقوق سلب‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ”آئین پر 4D حملہ“ ہے۔
مجلس کے سربراہ اسدالدین اویسی نے علامتی احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قانون کو ’ویسے ہی پھاڑ رہے ہیں جیسے مہاتما گاندھی نے جنوبی افریقہ میں برطانوی قانون کو پھاڑا تھا‘۔حکومت نے موقف اختیار کیا کہ بل کا تعلق جائیداد اور اس کے انتظام سے ہے نہ کہ مذہب سے۔ بی جے پی نے کہا کہ وقف کے زیر قبضہ وسیع اراضی اور املاک کانگریس کی خوشامدی پالیسیوں کے باعث ملی تھیں، جن میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئیں۔ یہ جائیدادیں خواتین اور بچوں کی فلاح کے لیے استعمال نہیں ہو رہی تھیں جسے نیا قانون ممکن بنائے گا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ وقف بل کو عوام کے ایک بڑے طبقے سے مشاورت کے بعد تیار کیا گیا اور اسے غیر مسلم اقلیتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل کی پیش کشی پر برسراقتدار این ڈی اے اور اپوزیشن انڈیا بلاک کے درمیان سخت ترین مباحث ہوئے۔ صدر مجلس و رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اس بل پر مدلل بحث کی اور آخر میں اس کو رد کرتے ہوئے بل کی نقل ایوان میں پھاڑ دیا۔
کانگریس قائدین بشمول کے سی وینو گوپال نے بل کے خلاف اعتراضات پیش کرتے ہوئے حکومت پرترامیم کے لئے خاطر خواہ وقت دیئے بغیر قانون سازی کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ وینو گوپال نے استدلال پیش کیا کہ بل پر مناسب مشاورت نہیں کی گئی اور ارکان کو اس میں ترامیم پیش کرنے کی اجازت دینے پر از سرنوغور کیا جائے۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے مسلم برادری کو تیقن دیا کہ نیا بل ان کے مذہبی امور میں مداخلت نہیں کرے گا۔
انہوں نے اپوزیشن پر الزام عائد کیا کہ ووٹ بینک سیاست کی خاطر وہ خوف پیدا کررہی ہے۔ وقف (ترمیمی) بل 2024 گزشتہ سال 8 اگست کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا، جس میں 1995 کے موجودہ وقف ایکٹ (2013 کی ترامیم سمیت) میں 40 کے قریب تبدیلیاں تجویز کی گئیں۔ ان ترامیم کا مقصد وقف انتظامیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنا، مقدمہ بازی میں کمی لانا اور وقف جائیدادوں کے مؤثر انتظام کو یقینی بنانا تھا۔تلخ مباحث اور اپوزیشن کی سخت تنقید کے بعد بل کو مزید جانچ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے سپرد کر دیا گیا، جس نے مجموعی طور پر اس کی منظوری ے دی۔
بحث کے دوران حکومت نے واضح کیا کہ یہ قانون وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام کے لیے ہے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مساوی طور پر استعمال ہو۔ کرن رجیجو نے کہا کہ حکومت نے جے پی سی کی کچھ سفارشات کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ بھی وضاحت کی کہ وقف بہ اعتبار استعمال کی گنجائش مستقبل میں نافذالعمل ہوگی۔ زیر داخلہ امت شاہ نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
اپوزیشن نے اس قانون کو آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی قرار دیا اور الزام لگایا کہ حکومت مذہب کی بنیاد پر عوام میں تفریق پیدا کر رہی ہے۔ کچھ ارکان نے جے پی سی کی کارروائی پر بھی سوالات اٹھائے۔ ڈاکٹر محمد جاویدنے جو کمیٹی کے رکن تھے کہا کہ جے پی سی کے 25 اجلاس ہوئے لیکن ایکٹ پر شق در شق بحث نہیں کی گئی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 300 تنظیموں اور 3000 افراد کو مدعو کیا گیا مگر ہر فرد کو اوسطاً صرف 10 سے 15 سیکنڈ بولنے کا موقع ملا۔ شیو سینا (یو بی ٹی) کے اروند گنپت ساونت نے بھی اس پر اتفاق کیا۔
اپوزیشن نے سنٹرل وقف کونسل اور اسٹیٹ وقف بورڈ میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے بھی اعتراض اٹھایا۔ کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گگوئی نے کہا کہ 1995 کے ایکٹ میں کم از کم دو خواتین کی شمولیت کی گنجائش تھی، جبکہ 2025 کے قانون میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں صرف دو تک محدود کر دی گئی ہیں۔رجیجو اور شاہ نے کلکٹر کے کردار کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ کلکٹر کو وقف جائیدادوں کے مالکانہ حقوق کی تحقیقات کا اختیاردیا جانا کوئی غلط بات نہیں کیونکہ وہ ریونیو ریکارڈ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ تاہم اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ کلکٹر سرکاری افسر ہوگا اور غیر جانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔