دہلی
ٹرینڈنگ

ہم وقف قانون میں کسی ترمیم کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے : مولانا ارشدمدنی

مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ 2013 میں تقریبا چالیس ترمیمات کے ساتھ نیا وقف ترمیمی بل 2024پارلیمنٹ میں پیش کرنے جارہی ہے، یہ ترمیمات کس نوعیت کی ہیں جس کی ابھی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے، تاہم جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اس ترمیمی بل پر اپنے تحفظات اورخدشات کا اظہار کیا ہے۔

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ 2013 میں تقریبا چالیس ترمیمات کے ساتھ نیا وقف ترمیمی بل 2024پارلیمنٹ میں پیش کرنے جارہی ہے، یہ ترمیمات کس نوعیت کی ہیں جس کی ابھی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے، تاہم جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اس ترمیمی بل پر اپنے تحفظات اورخدشات کا اظہار کیا ہے۔

متعلقہ خبریں
رانچی میں مسلم پرسنل لابورڈ کی وقف کانفرنس
وقف ترمیمی بل، مرکزی حکومت کے ارادے نیک نہیں ہیں: جعفر پاشاہ
وقف ترمیمی بل کے خلاف مجسمہ امبیڈکر ٹینک بنڈ پر کل جماعتی دھرنا، مولانا خیر الدین صوفی، عظمیٰ شاکر، عنایت علی باقری اور آصف عمری کا خطاب
وقف ترمیمی بل چور دروازے سے اوقافی جائیدادوں کو غصب کرنے کی سازش: مشتاق ملک
اسلام کیخلاف سازشیں قدیم طریقہ کار‘ ناامید نہ ہونے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا مشورہ

آج یہاں جاری ایک بیا ن میں انہوں نے کہا ہے کہ جس اندیشہ کا اظہارکیاجارہاہے کہ ان ترمیمات کے ذریعہ مرکزی حکومت وقف جائدادوں کی حیثیت اورنوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کرکے مسلم وقف کی حیثیت کو ختم کرنا آسان ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی کسی ترمیم کو جس سے وقف کی حیثیت اورواقف کی منشابدل جائے ہرگزہرگزقبول نہیں کرسکتے، جمعیۃعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف جائدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں جنہیں مذہبی اورمسلم خیرات کے کاموں کے لئے وقف کیا گیاہے، حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے، جمعیۃعلماء ہند وقف ایکٹ 2013میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائدادوں کی حیثیت اورنوعیت بدل جائے یا اسے قبضہ کرلینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہر گزقابل قبول نہیں ہے، اسی طرح وقف بورڈوں کے اخیتارات کو کم یا محدود کرنے کو بھی ہم منظورنہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے طرح کے حیلوں اوربہانوں سے مسلمانوں کو انتشار اورخوف میں مبتلارکھنے کے لئے ایسے ایسے نئے قانون لارہی ہے جس سے صریحاشرعی امورمیں مداخلت ہوتی ہے، حالانکہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلمان ہر خسارہ برداشت کرسکتاہے، لیکن اپنی شریعت میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرسکتامولانا مدنی نے وضاحت کی کہ یہ ایک طرح سے مسلمانوں کو دیئے گئے آئینی اختیارات میں دانستہ مداخلت ہے، آئین نے ہر شہری کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی امورپر عمل کرنے کا مکمل اختیاربھی دیاہے اورموجودہ حکومت آئین کے ذریعہ مسلمانوں کو دی گئی اس مذہبی آزادی کو چھین لینا چاہتی ہے۔

مولانا مدنی نے آگے کہاکہ مسلمانوں نے جو وقف کیا ہے اورجس مقصدکے لئے وقف کیا ہے واقف کے منشاکے خلاف استعمال نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ پراپرٹی وقف علی اللہ ہوتی ہیں، گورنمنٹ کی نیت خراب ہے ہمارے مذہبی مسائل میں دخل دینا چاہتی ہے، اور مسلمانوں کی اربوں کھربوں کی جائدادوں کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں خواہ وہ یوسی سی کامسئلہ ہو، یا طلاق کا مسئلہ ہویا نان نفقہ کا مسئلہ ہو، اس نے اس میں دخل دیا ہے،ہمیں ایسی کوئی ترمیم منظورنہیں جو واقف کے منشاء کے خلاف ہویا جو وقف حیثیت کو بدل دے،

اب اس وقت گورنمنٹ اوقاف کے دستورمیں ترمیم کی تجویز لاکر مسلمانوں کے مذہبی مسئلہ میں دخل دینے کی کوشش کررہی ہے لیکن جمعیۃعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف ایکٹ 2013میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائدادوں کی حیثیت یانوعیت بدل جائے یا کمزورہوجائے یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے ہر دور میں وقف املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مؤثر اقدامات کئے ہیں، اور آج بھی ہم اس عہدکے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان گورنمنٹ کے ہر اس منصوبے کے خلاف ہوں گے جو جائداد موقوفہ کی حفاظت کی ضمانت نہ دیتا ہو اور جس کاا ستعمال واقف کے منشا کے خلاف ہو۔

ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینے کے لئے خود کو تیار کرچکے ہیں۔کیوں کہ جمعیۃ علماء ہند اسلاف کے اثاثوں کی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جاری رہنے والی تباہی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔

وقف کی شرعی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ شریعت اسلامی کے مطابق مذہبی،فلاحی یا اسلام کے خیراتی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے منقولہ یا غیر منقولہ جائدادوں کے مستقل عطیہ کا نام وقف ہے، جو ایک بار قائم ہونے کے بعد کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔