مشرق وسطیٰ

ہم غزہ میں ’مکمل اور جامع جنگ بندی‘چاہتے ہیں:حماس

حماس کے زیرِ اقتدار علاقہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اس کے بعد سے غزہ میں اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائی میں کم از کم 26,637 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین‘ بچے اور نوعمر ہیں۔

غزہ: حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے پیر کے دن کہا کہ فلسطینی گروپ غزہ میں ”مکمل اور جامع جنگ بندی“چاہتا ہے جب ثالث قطر نے کہا کہ عارضی جنگ بندی کا فریم ورک تجویز کیا جا رہا تھا۔

متعلقہ خبریں
اسرائیلی فوج کی خان یونس میں بمباری، فلسطینی قبرستان میں پناہ لینے پر مجبور
رفح پر اسرائیلی حملہ، خون کی ہولی کا باعث بن سکتا ہے: ڈبلیو ایچ او
برطانیہ میں سیکل رانوں کی مہم، غزہ کیلئے فنڈس جمع کئے جارہے ہیں
اسرائیلی فوج کے فضائی حملوں میں مزید 27 فلسطینی شہید
فلسطینی فوٹو جرنلسٹ نے فرانس کا بڑا انعام ’فریڈم پرائز‘ جیت لیا

العربیہ کے مطابق طاہر النونو نے اے ایف پی کو بتاکہ ہم سب سے پہلے مکمل اور جامع جنگ بندی کے بارے میں بات کر رہے ہیں نہ کہ عارضی جنگ بندی کے بارے میں اور مزید کہا کہ ایک بار لڑائی بند ہو جائے تو یرغمالیوں کی رہائی سمیت ”باقی تفصیلات پر بات کی جا سکتی ہے“۔

7   اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے قطر‘ مصر اور امریکہ کے ساتھ مل کر ثالثی کی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے جو فلسطینی گروپ کے جنوبی اسرائیل پر مہلک حملوں سے شروع ہوئی تھی۔

قبل ازیں پیر کو قطری وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے کہا تھا کہ پیرس میں سی آئی اے کے سربراہ بل برنس اور اعلیٰ اسرائیلی اور مصری سیکوریٹی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجہ میں مرحلہ وار جنگ بندی کا فریم ورک تیار ہوا تھا۔

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ فریم ورک میں یرغمال خواتین اور بچوں کو پہلے رہا کیا جائے گا اور امداد بھی محصور غزہ پٹی میں داخل ہوگی۔شیخ محمد نے کہاکہ فریقین اس تجویز کو حماس تک منتقل کرنے اور انہیں ایسی جگہ پر لانے کی امید کر رہے تھے جہاں وہ اس عمل میں مثبت اور تعمیری طور پر شامل ہوں۔

پیر کو یہ واضح نہیں تھا کہ آیا حماس کو قطر کی طرف سے تجویز موصول ہوئی تھی۔اس سے قبل قطر نے نومبر کے آخر میں لڑائی میں ایک ہفتہ کے وقفہ کے لیے ثالثی کی تھی جس کے نتیجہ میں متعدد اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ محصور فلسطینی علاقہ میں امداد بھی پہنچی تھی۔

  سات اکتوبر کو حماس کے حملہ کے نتیجہ میں اسرائیل میں تقریباً 1,140 ہلاکتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ یہ حملہ جنگ کی وجہ بنا جو اب چوتھے مہینہ میں داخل ہو چکی ہے۔

مزاحمت کاروں نے 250 یرغمالیوں کو بھی قید کر لیا جن کے بارے میں سے اسرائیل کہتا ہے کہ 132 کے قریب غزہ میں بدستور موجود ہیں جن میں کم از کم 28 مردہ اسیروں کی لاشیں بھی شامل ہیں۔

حماس کے زیرِ اقتدار علاقہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اس کے بعد سے غزہ میں اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائی میں کم از کم 26,637 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین‘ بچے اور نوعمر ہیں۔

a3w
a3w