یوروپ

برطانیہ میں پرتشدد مظاہرے کب اور کیسے شروع ہوئے؟

برطانوی پولیس کے مطابق ان پر تشدد کارروائیوں میں انتہائی دائیں بازو کے گروپ انگلش ڈیفنس لیگ کے حامی ملوث تھے۔ منگل 6 اگست تک 400سے زائد افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں، ان میں 11سال کے بچے بھی شامل ہیں۔

لندن: برطانیہ کے شمال مغربی علاقے ساؤتھ پورٹ کے ایک ڈانس اسکول میں تین کمسن بچیوں کی ہلاکت کے بعد ملک کے متعدد شہروں میں پرتشدد مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

متعلقہ خبریں
پنشن اصلاحات کے خلاف فرانس میں شدید احتجاج

اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں میزبان ماریہ میمن نے ان مظاہروں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے پس پردہ حقائق بیان کیے۔

انہوں نے بتایا کہ اس حملے کے بعد 29 جولائی کو باقاعدہ سوشل میڈیا پر متنازع خبریں پھیلائی گئیں کہ حملہ کرنے والا مسلمان شخص تھا جو سیاسی پناہ کا متلاشی تھا، اور سال 2023 میں کشتی کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے برطانیہ پہنچا تھا۔

اس جھوٹی خبر کے وائرل ہونے کے بعد برطانیہ میں امیگریشن اور مسلم مخالف پرتشدد مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

احتجاج شروع ہونے کے اگلے ہی دن ایک ہزار سے زائد لوگوں نے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کی تقریب میں شرکت کی جس کے فوری بعد ایک مقامی مدجد کے باہر پرتشدد کارروائیاں کی گئیں، مشتعل افراد نے مسجد اور پولیس اہلکاروں پر اینٹیں، بوتلیں اور دیگر چیزیں پھینکیں۔

اس کے بعد یہ سلسلہ برطانیہ کے مختلف شہروں تک جا پہنچا اور ہجوم نے مساجد اور پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر حملے کیے، لائنبری سمیت عمارتوں کو آگ لگا دی اور کئی دکانیں لوٹ لیں۔ہل، لیور پول، برسٹل، مانچسٹر، بلیک پول اور بیلفاسٹ میں بھی پر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے۔

برطانوی پولیس کے مطابق ان پر تشدد کارروائیوں میں انتہائی دائیں بازو کے گروپ انگلش ڈیفنس لیگ کے حامی ملوث تھے۔ منگل 6 اگست تک 400سے زائد افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں، ان میں 11سال کے بچے بھی شامل ہیں۔

اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ مظاہروں میں غنڈہ گردی کرنے والے عناصر پچھتائیں گے۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے پرتشدد مظاہرین کو خبردار کیا کہ انہیں ‘قانون کی پوری طاقت’ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان حالات میں وہاں موجود مسلمان برادری بہت خوفزدہ ہے ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔

برطانیہ میں اے آر وائی نیوز کے نمائندے نے تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز مظاہروں کی اپیل کرنے والوں کیخلاف امن پسند شہری بھی باہر نکلے اور یہ پیغام دیا کہ اس معاشرے میں نسل پرستوں کیلیے کوئی جگہ نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر بہت سی معروف شخصیات نے اس آگ کو بھڑکانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا، تاہم جب حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کیے گئے تو چند دن میں ہی عدالتوں سے بھی سزاؤں کے فیصلے آنا شروع ہوگئے۔

اے آر وائی نوز کے نمائندے نے بتایا کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا، تاہم اب حالات کافی حد تک قابو میں ہیں اور خوف کی فضا بتدریج کم ہورہی ہے۔

a3w
a3w