دہلی

الیکشن کمشنر ارون گوئل کے تقرر میں انتہائی جلد بازی کیوں کی گئی؟: سپریم کورٹ

مرکز نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کے ذریعہ بنچ سے پرزور التجا کی کہ وہ تقرراتی عمل سے متعلق تمام مسائل کا جائزہ لئے بغیر تبصرہ نہ کرے۔ اٹارنی جنرل نے بنچ سے کہاکہ فی الحال آپ کچھ دیر کیلئے اپنا منہ بند رکھیں۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج ارون گوئل کو الیکشن کمشنر مقرر کرنے میں کی گئی جلد بازی اور ’غیر ضروری عجلت“ کے مظاہرہ پر سوال اٹھایا۔ مرکز نے عدالت کے تبصروں کی پرزور مزاحمت کی اور اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہاکہ وہ فی الحال اپنا منہ بند رکھے اور اس مسئلہ کا مکمل طور پر جائزہ لے۔

 ابتداء میں جسٹس کے ایم جوزف کی زیر صدارت 5 رکنی دستوری بنچ نے گوئل کے بحیثیت الیکشن کمشنر تقرر سے متعلق مرکز کی اصل فائل کا مطالعہ کیا اور کہاکہ یہ کس قسم کی جانچ ہے اگرچیکہ ہم ارون گوئل کی سند اعتبار کی میرٹ پر سوال نہیں اٹھارہے ہیں لیکن اس عمل پر اعتراض ہے۔

بنچ نے اس ’برقی جیسی سرعت‘  پر سوال اٹھایا‘ جس کے ذریعہ ارون گوئل کو الیکشن کمشنر مقرر کیاگیا اور کہاکہ ان کی فائیل 24 گھنٹوں تک محکموں کے اندر منتقل نہیں ہوئی تھی۔ مرکز نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کے ذریعہ بنچ سے پرزور التجا کی کہ وہ تقرراتی عمل سے متعلق تمام مسائل کا جائزہ لئے بغیر تبصرہ نہ کرے۔

اٹارنی جنرل نے بنچ سے کہاکہ فی الحال آپ کچھ دیر کیلئے اپنا منہ بند رکھیں۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملہ کو مکمل طور پر دیکھیں۔ جسٹس اجئے رستوگی نے بھی جو اس بنچ میں شامل تھے‘ وینکٹ رمنی سے کہا کہ آپ کو عدالت کی بات غور سے سننی ہوگی اور سوالات کا جواب دینا ہوگا۔

ہم انفرادی امیدواروں کے بارے میں نہیں بلکہ اس پورے عمل کے بارے میں سوال کررہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ عدالت کے سوالات کا جواب دینے کے پابند ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہاکہ 1985 بیاچ کے آئی اے ایس عہدیدار کو ایک ہی دن میں خدمات سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ دیا گیا‘ وزارت قانون نے ایک ہی دن میں ان کی فائیل کو منظوری دے دی۔

 وزیراعظم کے سامنے 4 ناموں کا ایک پیانل رکھا گیا اور 24 گھنٹے کے اندر گوئل کے نام کو صدر جمہوریہ سے منظوری حاصل ہوگئی۔ بنچ نے کہاکہ اس پیانل میں شامل 4 ناموں میں سے کسی کو بھی وزیر قانون نے نہیں چُنا تاکہ وہ 6 سالہ میعاد پوری کرسکیں۔

اس بنچ میں جسٹس انیرودھ بوس‘ جسٹس رشی کیش رائے اور جسٹس سی ٹی روی کمار بھی شامل تھے۔ وینکٹ رمنی نے انہیں جواب دیا کہ انتخاب کے لئے ایک طریقہ کار اور معیار موجود ہے اور ایسی کوئی صورتحال نہیں ہوسکتی جس میں حکومت کو ہر عہدیدار کے ٹریک ریکارڈ پر نظر ڈالنی پڑے اور اس بات کو یقینی بنانا پڑے کہ وہ اپنی 6 سالہ میعاد مکمل کرسکے۔