مذہب

خواتین اوررات کی ڈیوٹی

قدرت کا نظام یہ ہے کہ جو چیزیں لطیف اور نازک ہوتی ہیں اور لوگوں کے لئے مرکز توجہ بنتی ہیں، انھیں مستور و محفوظ حالت میں رکھا جاتا ہے، مٹی اور پتھر کا انبار سطح زمین پر موجود رہتا ہے؛ لیکن سونا اور چاندی اور لوہا اور تانبا سطح زمین پر نہیں ملتا ہے؛

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

متعلقہ خبریں
برقعہ اور حجاب کی مخالف بی جے پی کی خاتون ایم ایل اے نے برقعے تقسیم کیے
اکسپریس، پلے ویلگو بسوں میں خواتین کامفت سفر۔ احکام جاری
گائے کا تحفظ، تمام مذاہب اور ملکوں کے مفاد میں: آر ایس ایس
مین اسٹریم میڈیا کے لیے افرادسازی وقت کی اہم ضرورت : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آئرلینڈ کی میری والڈرون ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی معمرکھلاڑی

قدرت کا نظام یہ ہے کہ جو چیزیں لطیف اور نازک ہوتی ہیں اور لوگوں کے لئے مرکز توجہ بنتی ہیں، انھیں مستور و محفوظ حالت میں رکھا جاتا ہے، مٹی اور پتھر کا انبار سطح زمین پر موجود رہتا ہے؛ لیکن سونا اور چاندی اور لوہا اور تانبا سطح زمین پر نہیں ملتا ہے؛ بلکہ سخت جان پتھروں کی تہہ میں ذرّات کی شکل میں چھپا رہتا ہے اور کتنے ہی جتن کے بعد اسے نکالا جاتا ہے، دریا میں سیپ اور گھونگے جہاں تہاں پڑے رہتے ہیں؛ لیکن موتی سیپ کے غلاف میں مستور رہتا ہے، خود انسان کے جسم کو دیکھئے، ہاتھ پاؤں کھلی ہوئی حالت میں ہیں لیکن زبان کو ۳۲ دانتوں کے درمیان چھپا کر رکھا گیا ہے، دماغ اور قلب کا معاملہ اس سے بھی سوا ہے؛ کیو ںکہ یہ جسم کے بادشاہ اور فرمانروا ہیں؛ پسلیوں کے لچکدار حصار میں ان کو بٹھایا گیا ہے اور دماغ کے لئے سخت قسم کی ہڈیوں کی کھوپڑی کا محفوظ قلعہ بنایا گیا ہے، یہی قدرت کا نظام ہے ۔

دنیا میں بے جان چیزوں کے مقابلہ جاندار چیزیں زیادہ حفاظت کی محتاج ہوتی ہیں، اور جاندار چیزوں میں بھی انسان کو زیادہ تحفظ مطلوب ہوتا ہے، اسی لئے دوسرے جانوروں کو دیکھئے نہ ان کے ساتھ خاندان کا وجود ہے اور نہ وہ انسانوں کی طرح بلند و بالا محفوظ وقلعہ بند اور خوبصورت بلڈنگیں بنا سکتے ہیں، انسان کے لئے ظاہری تحفظ کا یہ انتظام کیا گیا کہ وہ مضبوط و محفوظ مکانات میں رہائش پذیر ہوتا ہے، اور اسے خاندانی پشت پناہی کی صورت میں معنوی تحفظ کا بھی سرو سامان بخشا جاتا ہے، جو اس کے جان و مال، عزت و آبرو اور شخصیت کا محافظ ہے ۔

بنی نوعِ انسان میں بھی عورتوں کے لئے حفاظت و صیانت کی زیادہ ضرورت ہے؛ اسی لئے وہ ہمیشہ مردوں کی حفاظت میں ہوتی ہیں، بیٹی ہو توباپ کی حفاظت میں، بیوی ہو تو شوہر کی حفاظت میں، ماں ہو تو اولاد کی حفاظت میں، بہن ہو تو بھائیوں کی حفاظت میں، اور بحیثیت مجموعی پورے خاندان اور سماج کا تحفظ اسے حاصل ہوتا ہے، اگر کسی کی لڑکی صبح کو گھر سے نکلی، اسے چار بچے تک گھر واپس آنا تھا، اور وہ آٹھ بجے شب تک واپس نہیں آئی، تو ماں باپ کا دل ڈولنے لگتا ہے، پورا گھر بے قرار ہو جاتا ہے، اور اس کی تلاش شروع ہو جاتی ہے؛ لیکن لڑکوں کے آنے میں دو تین گھنٹے بھی تاخیر ہو جائے تو اس سے کوئی بڑی بے چینی نہیں ہوتی، شکوک و شبہات اور خطرات کے بادل نہیں اُمنڈتے، یہ فطرت کی پکار ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کی بمقابلہ مرد کے زیادہ حفاظت مطلوب ہے ۔

عورت کا زیادہ محتاجِ تحفظ ہونا اس کا کوئی عیب نہیں؛ بلکہ حقیقت میں اس کا ہنر ہے، اب دیکھئے کہ لوہا، ریتی کا انبار تو آپ اپنے گھر کے سامنے ڈال دیتے ہیں اور سونا اور چاندی کو ہزار پردوں میںچھپا کر گھر، گھر کی الماری اور الماری کے لاکر میں رکھا جاتا ہے، کیا اس سے سونے کی اہمیت کم ہو جاتی ہے ؟ ہاتھی اتنا طاقتور ہے، کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے کسی کی مدد کا محتاج نہیں؛ لیکن انسان تحفظ و نگہداشت کا محتاج ہو تا ہے تو کیا ہاتھی کی اہمیت بڑھ گئی اور انسان کی اہمیت کم ہو گئی ؟

اسی بنیاد پر مشرقی ممالک میں عورتوں اور مردوں کے دائرۂ کار میں فرق کیا گیا ہے اورمذاہب ِعالم میں اس فرق کو تسلیم کیا گیا ہے، اسلام نے بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کے بجائے عدل کا معاملہ اختیار کیا ہے، مساوات کے معنی ہیں ہر شخص کے ساتھ برابری کا سلوک اور عدل کے معنی ہیں ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے مطابق ذمہ داری سونپنا اور ذمہ داریوں کی نسبت سے اس کے حقوق متعین کرنا؛ اسی لئے عورتوں کی بنیادی ذمہ داری اُمورِ خانہ کی نگہداشت کو قرار دیا گیا، وہ گھر کی خادمہ نہیں بلکہ مالکہ ہیں، رسول اللہ ﷺ کے الفاظ میں ’’ راعیۃ علی بیت زوجہا‘‘ لیکن مالکہ گھر کی ہے نہ کہ گھر کی باہر کی، اس لئے اسے بنیادی طور پر اپنے گھر کے انتظام و انصرام کو دیکھنا چاہئے ۔

لیکن بعض مواقع ایسے آتے ہیں اور ایسی ضرورت پیش ہوتی ہے، کہ عورتوں کو گھر سے باہر بھی نکلنا ہوتا ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی بعض خواتین محدود پیمانہ پر تجارت کیا کرتی تھیں، بعض دفعہ غیر معمولی حالات میں فوجیوں کی تیمارداری کا فریضہ بھی عورتوں نے انجام دیا ہے، عہدِ نبوی ﷺ میں تعلیمی اور تربیتی ضرورت کے تحت خواتین مسجد بھی جایا کرتی تھیں؛ چنانچہ ان مواقع پر احتیاط کی صورتیں اختیار کرنے کاحکم دیا گیا، انھیں تلقین کی گئی کہ ان کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، پھر صفوں کی ترتیب اس طرح رکھی گئی کہ آگے مرد کھڑے ہوں، درمیان میں بچے اور پیچھے خواتین، انھیں تاکید کی گئی کہ مسجد میں آتے ہوئے اور باہر نکلتے ہوئے تیز خوشبو استعمال نہ کریں، کپڑوں میں بھی خوب ستر کا حکم دیا گیا اور باہر نکلتے وقت سادہ کپڑے استعمال کرنے کی تلقین کی گئی، خود رسول اللہ ﷺ کا معمولِ مبارک تھا کہ سلام پھیر نے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر جاتے؛ تاکہ مردوں کے نکلنے سے پہلے عورتیں نکل جائیں، (ابو داؤد، حدیث نمبر : ۱۰۴۰ ) عورتوں کو اس بات سے منع کیا گیا کہ وہ ایک شب کا سفر کسی محرم کے بغیر کریں ۔ (ابو داؤد، باب فی المرأۃ الحج بغیر محرم)

ان سب کا مقصود عورت کی حفاظت اور اس کی رعایت ہے؛ چوں کہ یہ بات فطرت کے عین مطابق اور سمجھدا ر لوگوں کے نزدیک مسلّمہ حقیقت ہے؛ اس لئے تمام ہی طبقات میں اس کی رعایت کی جاتی رہی ہے، ہندوستان میں انیسویں صدی میں ’ جو برطانوی حکومت کا عہد تھا ‘ لیبر لاء بنا، اس میں خواتین کے لئے رات کی شفٹ میں ملازمت کو ممنوع قرار دیا گیا، اور کچھ عرصہ پہلے تک یہی قانون مروّج تھا؛ لیکن کچھ سال پہلے ہماری حکومت نے اس قانون کو تبدیل کر تے ہوئے خواتین کو رات کی شفٹ میں ملازمت کی اجازت دے دی ہے، بعض حلقوں سے آواز اٹھ رہی تھی کہ خواتین کو رات کی ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا جائے؛ مگر چند دنوں پہلے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس مطالبہ کو غلط ٹھہرا دیا ہے، اور اسے خواتین کے ساتھ ہمدردی کا نام دیا گیا ہے؛ لیکن اہلِ حقیقت جانتے ہیں کہ در حقیقت یہ عورتوں کے ساتھ زیادتی ہے اور ان کو رات میں بھی کام کرنے پر مجبور کرنا ہے ۔

خواتین کے لئے رات کی ڈیوٹی کئی جہتوں سے نا مناسب ہے، سب سے اہم تو اخلاقی پہلو ہے، رات کی ڈیوٹی میں اجنبی مردوں کے ساتھ تنہائی کی نوبت آتی ہے، آتے اور جاتے ہوئے راستہ کا سناٹا بھی اس کے لئے خطرہ سے خالی نہیں ہوتا، اور بیمار ذہن و اخلاق کے لوگ رات ہی کے وقت مجبور عورتوں کو اپنا شکار بناتے ہیں، اس لئے یہ ڈیوٹی اس کی عفت و آبرو کے لئے آزمائش بن جاتی ہے، پھر سماجی اور عمرانی پہلو سے دیکھئے کہ مرد ڈیوٹی کر کے رات کو گھر واپس ہوتے ہیں، بچے اسکولوں میں پڑھ کر سر شام واپس ہوتے ہیں عورت کے وجود سے گھر کی رونق اور اس کی زینت ہوتی ہے، وہ شوہر کے لئے سکون کا سامان بنتی ہے، بچوں کو پیار بانٹتی ہیں اور ان کی ضروریات کی نگہداشت کرتی ہے، گھر میں بوڑھے لوگ ہوں تو رات کے وقت ان کی دیکھ ریکھ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، اگر عورت ہی گھر میں موجود نہ ہو تو گھر ایسے جسم کی طرح ہے جو قلب سے خالی ہو، وہ ایک ہوٹل یا’’ ہاسٹل ‘‘ تو کہلا سکتا ہے، گھرکہلانے کا مستحق نہیں ہوتا، اس سے خاندانی نظام بکھرتا ہے، باہمی محبت میں جو گرم جوشی اور جذباتیت ہونی چاہئے،وہ مفقود ہو جاتی ہے ۔

اس ڈیوٹی کا اثر ازدواجی زندگی پر بھی پڑتا ہے، بیوی کی ایک ایسے وقت میں عدمِ موجودگی جب شوہر تھک تھکا کر اپنے گھر آتا ہے، آہستہ آہستہ محبت کی آگ کو سرد کردے گی، پھر یہ رات کی غیر حاضری شکوک و شبہات کو بھی ابھار سکتی ہے، اور اعتماد کا آبگینہ بھی اس سے چور چور ہو سکتا ہے، نتیجہ یہ ہو گا کہ ازدواجی زندگی میں جو استحکام اور گرم جوشی مطلوب ہے، وہ کم ہوتی چلی جائے گی، اسی طرح یہ رات کی ڈیوٹی بچوں کو ماں کی ممتا اور شوہر کو بیوی کے پیار سے محروم کر کے رکھ دے گی ۔

پھر خود اس عورت کے حالات کو دیکھئے، اوّل توماں بننے کے بعد عورت کے جسمانی قوی میں تیزی سے انحطاط پیدا ہوجاتا ہے، اور طرح طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں، پھر رات کا وقت سکون کا اور بھر پور نیند کا ہے، یہ نیند جسم کی تازگی اور توانائی کا بھر پور ذریعہ ہے، جو جسم کے تکان کو اتار کر انسان کو نیا حوصلہ دیتی ہے، غریب عورت کو رات کی یہ نیند بھی میسر نہیں آئی تو اس کی صحت کا کیا حال ہوگا ؟ ایک تو اس پر کسبِ معاش کا بوجھ ہی کیا کم امتحان تھا، اب رات کا سکون بھی گیا ۔

ویسے تو یہ شبانہ ڈیوٹی ایک اختیاری عمل محسوس ہوتا ہے؛ لیکن بہت سے حالات میں یہ اختیاری عمل ہونے کے بجائے عورت کے لئے ایک مجبوری ہو جائے گی، بعض مرد افسر جو غلط اخلاق و کردار کے حامل ہوں، عورت کو رات کی ڈیوٹی پر مجبور کر سکتے ہیں، اور عورت اپنی معاشی مجبوری کے تحت اس حکم کو ماننے پر مجبور ہوگی، اسی طرح بعض حریص شوہر بھی اپنی بیوی کو دو ہری ڈیوٹی پر مجبور کر سکتے ہیں؛ تاکہ وہ اس سکہ ڈھالنے والی مشین سے زیادہ پیسے وصول کر سکے، اوراپنی حرص و ہوس کے عفریت کو آسودہ کرے ۔

غرض کہ خواتین کے لئے رات کی ڈیوٹی کرنا اس کے لئے رحمت نہیں زحمت ہے، راحت نہیں کلفت ہے، اور اس کے مسائل کو حل کرنا نہیں؛ بلکہ اس کی مشکلات کو بڑھا نا ہے، اس سے اس کی صحت پر منفی اثر پڑے گا، اس کی عفت و آبرو خطرہ میں رہے گی، ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی نظر میں شک کے دائرہ میں رہے، ازدواجی زندگی کا سکون و استحکام پامال ہوسکتا ہے، بچے ماں کی محبت سے محروم ہو سکتے ہیں، اور مختلف پہلوؤں سے عورت کا استحصال ہوسکتا ہے؛ اس لئے اس ترمیم شدہ قانون کو بدلنے اور عورتوں کے حق میں رات کی ڈیوٹی پر پابندی بر قرار رکھنے کی ضرورت ہے، اور سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں قانون بناتے ہوئے اخلاقی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور عورت سے اس کا عورت پن نہ چھینا جائے۔

٭٭٭