مساجد و مدارس پر سوال کیوں؟ عبادت و علم کے مراکز کو شک کی نظر سے دیکھنا افسوسناک: علماء
ہندوستان کے گنجان شہروں اور خاموش دیہاتوں میں آج بھی اذان کی آواز میناروں سے بلند ہوتی ہے، اور مدارس کی دیواروں کے اندر قرآن کے اوراق کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے۔

نئی دہلی (منصف نیوز ڈیسک) ہندوستان کے گنجان شہروں اور خاموش دیہاتوں میں آج بھی اذان کی آواز میناروں سے بلند ہوتی ہے، اور مدارس کی دیواروں کے اندر قرآن کے اوراق کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے۔
اسلام کی ان دو بنیادوں – مسجد اور مدرسہ – جنہوں نے صدیوں سے مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی رہنمائی کی ہے، کو آج کے سیاسی بیانیے میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جہاں ہندو عوام مندروں اور پجاریوں سے بخوبی واقف ہیں، وہیں بہت سے افراد یہ نہیں جانتے کہ مسجد یا مدرسہ کے اندر درحقیقت کیا ہوتا ہے۔
سیاسی آوازوں کے شور اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پروپیگنڈے کے بڑھتے رجحان نے ملک کے مسلمانوں کو ایک تنگ دائرے میں لا کھڑا کیا ہے، محض اس لیے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم ہیں۔دی کلارین کی اطلاع کے مطابق لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین مولانا مفتی عرفان قاسمی نے کہا:“مساجد اور مدارس نفرت کے مراکز نہیں، بلکہ عبادت اور علم کے مراکز ہیں۔
یہ دکھ کی بات ہے کہ ہمارے مقدس مقامات پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور ہماری حب الوطنی کو مشکوک نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔”مسجد، جسے عربی میں "مسجد” ہی کہا جاتا ہے، وہ جگہ ہے جہاں مسلمان دن میں پانچ بار نماز ادا کرتے ہیں۔ جمعہ کا خطبہ ایک اہم موقع ہوتا ہے جب بڑی تعداد میں افراد مسجد میں روحانی رہنمائی حاصل کرنے آتے ہیں۔
یہ صرف عبادت کا عمل نہیں بلکہ اتحاد، سماجی مسائل پر گفتگو اور عدل، اخلاق اور حسنِ سلوک کی تعلیم کا ذریعہ ہے۔حیدرآباد کے دکان دار محمد اظہر نے کہا:“ہماری مسجد ہمیں بہتر انسان بننے کی تعلیم دیتی ہے۔ ہمیں سچ بولنے، دھوکہ نہ دینے اور غریبوں کی مدد کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس میں غلط کیا ہے؟”اگرچہ بعض شہروں میں ان مقدس مقامات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یا انہیں شدت پسندی کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہ الزامات اکثر تعصب پر مبنی ہوتے ہیں، ثبوت پر نہیں۔
دہلی کی سماجی کارکن سعدیہ پروین نے سوال اٹھایا:“ہم بار بار سنتے ہیں کہ مساجد انتہا پسندی کی پرورش کرتی ہیں۔ لیکن کہاں ہے اس کا کوئی ثبوت؟ میرا بیٹا روزانہ مسجد جاتا ہے، وہاں سے عاجزی سیکھ کر واپس آتا ہے، نفرت نہیں۔”عربی میں "مدرسہ” کا مطلب ہوتا ہے ‘اسکول’۔ یہاں بچوں اور نوجوانوں کو قرآن، اسلامی فقہ، حدیث، اور عربی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آج بہت سے مدارس نے اپنے نصاب میں جدید مضامین جیسے ہندی، انگریزی اور ریاضی کو بھی شامل کر لیا ہے۔
بریلی کے ایک مدرسہ کے پرنسپل محمد فہیم نے کہا:“مدرسے وہ دہشت گردی کے اڈے نہیں ہیں جیسا کہ کچھ ٹی وی اینکر پرائم ٹائم پر چیختے ہیں۔ ہم اپنے طلبہ کو اخلاقیات، نظم و ضبط، اور دوسروں کے احترام کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہم سائنس اور زبانیں بھی پڑھاتے ہیں۔”مدارس میں پڑھنے والے اکثر بچے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے والدین پرائیویٹ یا یہاں تک کہ سرکاری اسکولوں کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔
مدارس ان بچوں کو مفت تعلیم، کھانا اور رہائش فراہم کرتے ہیں اور انہیں غربت سے نکلنے کا موقع دیتے ہیں۔بہار سے تعلق رکھنے والے 12 سالہ طالب علم سمیر نے کہا:“اگر مدرسہ نہ ہوتا تو میں آج سڑک پر بھیک مانگ رہا ہوتا۔ اب میں استاد بننا چاہتا ہوں تاکہ اپنے جیسے بچوں کی مدد کر سکوں۔’تاہم، اس قدر اہم اور مثبت کردار ادا کرنے کے باوجود مدارس کو اکثر شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سرکاری اداروں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔