حیدرآباد

نکاح کے مسنون طریقے پر مفتی حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

اور اس دور میں تو زیادہ حق مہر ہی رکھنا چاہیے۔ تاکہ آئے دن طلاقوں کا تماشا ہی ختم ہو۔ اور عورت کی عزت بحال ہو۔حق مہر معاف کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔ ہاں اس کے مطالبہ میں تراخی و تاخیر کی جائے۔

حیدرآباد: ممتاز ومعروف سینئر اسلامی اسکالر مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے نکاح پڑھنے کا مسنون طریقہ کے موضوع گفتگو کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ سب سے پہلے تو یہ معلوم کریں کہ نکاح جن دو میں پڑھایا جا رہا ہے ان کا نکاح شرعا جائز ہے۔

متعلقہ خبریں
کانگریس حکومت چھ ضمانتوں کو نافذ کرنے میں ناکام : فراست علی باقری
اللہ کے رسول ؐ نے سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم دیا: مفتی محمد صابر پاشاہ قادری
جمعیتہ علماء حلقہ عنبرپیٹ کا مشاورتی اجلاس، اہم تجاویز طئے پائے گئے
اہل باطل ہمیشہ سے پیغام حق کو پہچانے سے روکتے رہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
حیدرآباد: شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کے 110 ویں عرس مبارک کے موقع پر جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد

کوئی مانع تو نہیں۔ مثلا محرمات نہ ہوں عورت عدت میں نہ ہو وغیرہ دونوں مسلمان ہوں یا مرد مسلمان اور عورت کم از کم اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) ہو۔ دو مسلمان عاقل مرد گواہ ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں۔

حق مہر معین کریں جو دس درہم چاندی سے کم نہ ہو۔ جو مساوی ہو ڈھائی تولہ چاندی کے۔ زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ جتنا چاہیں باہمی رضا مندی سے مقرر کر سکتے ہیں۔

حق مہر نکاح کے ساتھ ہی لازم ہو جاتا ہے۔ لہذا کوشش ہونی چاہیے کہ موقع پہ ہی ادا  کر دیا جائے۔

بعد میں مسائل بنتے ہیں۔ حق مہر کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ مہر کا تعلق طلاق سے ہے  جو غلط اور جاہلانہ بات ہے۔ نیز جو لوگ کہتے ہیں حق مہر شرعی /32/10  کم از کم کی حد بتا دی ہے زیادہ کی حد نہیں۔ چونکہ حق مہر مقرر کرنے کا مقصد عورت کی عزت و وقار اور تحفظ۔

لہذا زیادہ سے زیادہ رقم ہونی چاہیے۔ ورنہ بے قصور بچیوں کو معمولی رقم دے کر لا ابالی، نالائق خاوند معمولی بات پر اور بسا اوقات تو معمولی بات بھی نہیں ہوتی ظلما طلاق دے کر زندہ درگور کر دیتے ہیں۔

اس ظلم میں وہ تمام لوگ قصور وار ہیں جن کے غلط فیصلوں نے ایک عورت کو اتنا بے وقعت کر دیا۔ حالانکہ مسلمان نہ  ظالم ہوتا ہے اور نہ مظلوم لا تظلمون ولا تظلمون حق مہر لڑکے، لڑکی کی باہمی رضا مندی سے مقرر کریں۔

نابالغ بچوں اور نابالغ بچیوں کے نکاح ہر گز ہر گز نہ  کریں۔ ان کو بالغ ہونے دیں اور ان کو وہ حق دیں جو قرآن دیتا ہے، یعنی شادی میں ان کی رضامندی دیکھی جائے۔

فرمان باری تعالی ہے۔فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِاپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو (النساء4 : 3)قرآن پر عمل کریں نوجوانوں کو اچھے مشورے ضرور دیں، لیکن اپنی پسند ان پر مسلط نہ کریں کہ بہت سی پریشانیوں کاسبب بنتی ہے۔ حق مہر کی رقم معقول رکھی جائے تا کہ بچی کا مستقبل محفوظ رہے۔ قرآن کریم میں فرمایا۔

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًااگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بدلنا چاہتے چاہو۔ اور ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔(النساء 4 : 20)قرآن کریم سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حق مہر ڈھیر سارا بھی ہو سکتا ہے۔

اور اس دور میں تو زیادہ حق مہر ہی رکھنا چاہیے۔ تاکہ آئے دن طلاقوں کا تماشا ہی ختم ہو۔ اور عورت کی عزت بحال ہو۔حق مہر معاف کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔ ہاں اس کے مطالبہ میں تراخی و تاخیر کی جائے۔

حق مہر ایک قرض ہے اور اس کے برقرار رہنے سے اس کا مقصد حاصل ہو گا۔ یعنی بچی کے مستقبل کا تحفظ۔ اس ضمانت کو ضائع نہ کریں۔ مرد کو بھی معاف کروانے سے زیادہ اس حق کی ادائیگی کی فکر  کرنی چاہیے۔ ہر چند کہ عورت معاف کر سکتی ہے مگر اس میں جلد بازی اور دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔

عمر بھر اپنی لاعلمی کی وجہ سے اپنے شرعی حقوق سے محروم رہتی ہیں اور جب محرومیں سے تنگ ہوتی ہیں تو نادان اسلام اور علمائے اسلام پر برستی ہیں۔ حالانکہ اسلام نے انہیں اپنی مرضی کی شادی کا حق دیا۔

ماں، باپ، بھائی، خاوند، اولاد، بہن کے ترکہ میں مقرر حصہ دیا ہے۔ لیکن یہاں کی %90 عورتوں کو اپنے ان حقوق کا علم ہی نہیں، اول تو مسلمانوں میں تعلیم ہی کم ہے۔

پھر نام نہاد پڑھے لکھے بھی شرعی احکام سے ناواقف ہیں۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کا ذخیرہ آسان اردو میں موجود ہے۔

یہ علمی خزانہ کسی خاص طبقے کے لیے خاص نہیں۔ اللہ کی رحمت سب کے لیے عام ہے۔ اس سے استفادہ کریں۔پہلے نکاح فارم پر کریں۔ متعلقہ اشخاص کے دستخط کروا لیں، پھر لڑکے لڑکی دونوں سے اجازت لیں۔

لڑکی کو لڑکے کا پورا تعارف کروائیں۔ حق مہر دونوں کی مرضی اور اجازت سے طے کروائیں۔ خاندان والے باوقار طریقہ سے گھر والوں کے سامنے لڑکے اور لڑکی کی ملاقات کروائیں۔

تاکہ وہ دیکھ کر اپنی پسند کا اظہار کریں۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم کا حکم اوپر ذکر ہو چکا ” کہ اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو۔

جس کا صریح مفاد یہ ہے کہ دیکھ کر نکاح کرو کہ دیکھے بغیر پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

اذا خطب احدکم المرءة فان استطاع ان ينظر الی ما يدعوه الی نکاحها فليفعل تم میں سے کوئی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو اگرممکن ہو تو اس کی ان خوبیوں کو دیکھے (چہرہ، ہاتھ، پاؤں، قد، رنگ، آنکھیں، نیک عادات وغیرہ) جو اسے اس عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دیں۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔هل نظرت اليها؟ قلت لا قال فانظر اليها فانه احری ان يودم بينکما تو نے اسے دیکھا؟ میں نے عرض کی نہیں۔

فرمایا اسے دیکھ لے کہ یہ طریق تم میں محبت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہو گا۔پھر گواہوں کے رو برو لڑکے سے کہیں کہ فلاں لڑکی کو اتنے حق مہر کے بدلے اپنے نکاح میں قبول کرتے ہو؟ وہ قبول کرے تو خطبہ مسنون پڑھ کر دونوں کے اچھے مستقبل، اتحاد و اتفاق اور حسن معاشرت کی دعا کریں۔

پھر چھوہارے وغیرہ حاضرین پر لٹائیں۔ اگر رخصتی بھی ساتھ ہی کرنی ہے تو بغیر اسراف و تبذیر کے حسب توفیق حاضرین کو دعوت ولیمہ کھلائیں۔ ولیمہ سنت ہے مگر شرط  یہ ہے کہ قرض نہ لیں۔

فضول خرچی نہ کریں۔ اور تمیز سے کھانا کھلائیں۔ رزق ضائع نہ کریں۔ غریب لوگوں کو بھی کھانے میں شامل کریں۔لڑکی کی رضا مندی بھی ضروری ہے :

الایم احق بنفسها من وليها والبکر تستاذن فی نفسها و اذنها صحاتهاغیر شادی شدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنا اختیار رکھتی ہے اور کنواری سے بھی، اس کے بعد اجازت لی جائے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔(مسلم، مشکوة، ص : 270)