محمد نعیم الدین خطیب
آم اب اتنے عام ہوگئے ہیں کہ ہرقسم کے آم عام آدمی کے لیے دستیاب ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ اعلیٰ نسل کے خاص الخاص آم آج بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ رشوت خوراعلیٰ افسران‘ گھوٹالے باز سیاسی چمن لال‘ ہرکام میں کمیشن کھانے والے وزیرمحترم، کالی دنیا میں شہرت رکھنے والے مافیا ڈان کے لیے خاص الخاص آم کی پیٹیاں الگ سے رکھی جاتی ہیں۔ آپ اور ہم جیسے حلال خور حلال کمائی سے یہ آم نہیں خریدسکتے۔ اس لیے جوآم عام ہے، اسی پر اکتفاکیجئے۔ آپ کی حلال خوری کے بعدجنت میں ان سے بھی اعلیٰ قسم کے آم آپ کا انتظار کررہے ہیں،کیوں کہ جنت میں کوئی حرام خورداخل نہیں ہوگا۔
آم نے زمانہ قدیم سے راجاؤں اورحکومت کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ آم پھلوں کاراجہ ہے۔اسی لیے زمانہ قدیم سے راجاؤں اورحکمرانوں کے درمیان محبت اورتعلقات میں مٹھاس کا سفیر بن کر جاتا رہاہے۔ آج بھی پڑوسی ملکوں سے ہمارے تعلقات بھلے ہی خراب اورکڑوے ہوں، لیکن دونوں ہی حکومتیں آم کی ٹوکریوں کے تبادلے کے ذریعے تعلقات میں رس گھولنے کی کوشش کرتی ہیں۔
مغلوں نے اپنے چارسوسالہ دورحکومت میں شاندار عمارتیں بنائیں جوآج بھی دودھ دینے والی گائے ثابت ہورہی ہیں۔ پورا محکمہ سیاحت مغلوں کے احسانوں پر پل رہا ہے۔مغلوں نے عالمی شہرت یافتہ شہر بسائے جن کے نام بدل کرسماج دشمن بدمعاش لوگ کرسی اور اقتدار کمارہے ہیں۔ مغلوں نے لال قلعہ‘ تاج محل‘ جامع مسجد‘ فتح پور سیکٹری‘ مقبرے جیسی عالمگیرشہرت یافتہ عمارتیں بنائیں لیکن مغلوں کا تاج محل سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے آم کو تخم (گھٹلی) کی بجائے قلم (Bud)کے ذریعے اگایا۔ آم کی نئی نئی قسمیں دریافت کیں، ہزاروں‘ لاکھوں درختوں پرمشتمل وسیع وعریض آم کے باغات لگوائے۔ ان میں قسم قسم کے آموں کی قسمتیں پروان چڑھائیں۔ اگر ان باغات کو آباد رکھا جاتا توہم آم کے بدلے عربوں کا سارا پیٹرول خریدلیتے۔
اردو میں توتعلیم کی شروعات ہی آ۔ سے آم سے ہوتی ہے تاکہ ہرنسل آم کی افادیت سے آگاہ ہوجائے۔اسی آگاہی کا نتیجہ ہے کہ بچے بوڑھے‘ مرد‘ عورت امیر وغریب‘ عالم وجاہل‘ شوہر وبیوی‘ ساس‘ وبہو سبھی آم کے عشق میں مبتلا ہیں۔ اپنی بھرپور غذائیت اور شہرت کے باوجود ہماری اچھی خاصی آبادی کے لیے آم شجرممنوعہ (پھل ممنوعہ) ہے۔ یہ آبادی بڑی ہی حسرت ویاس سے آم کو نہارتی ہے۔سب کے سامنے آم سے آنکھیں چراتی ہیں۔رات کے اندھیرے میں اپنے ہی گھر سے چرا کر چوری چوری‘ چپکے چپکے کھالیتی ہے لیکن خفیہ چوری کا بھانڈا شوگررپورٹ کے آتے ہی پھوٹ جاتا ہے۔ اس کے بعدڈاکٹر کی ڈانٹ،کڑوی گولیوں اور انسولین کے انجکشن کی بھرمار‘ تیمار داروں کی تنبیہ‘ عیادت کرنے والوں کی نصیحت آم کی مٹھاس میں ذیابیطس کی کڑواہٹ گھول دیتی ہے۔ ہم خود کو لعن طعن کرتے ہیں، لیکن دوبارہ اسی غلطی کودہراتے ہیں، کیوں کہ مریض بدپرہیزی کا پتلا ہے۔ ہماری اسی بدپرہیزی کی بدولت ڈاکٹر کے دواخانے،میڈیکل اسٹورکی دوائیں اورکارخانے، اورلیباریٹریاں چلتی ہیں، یعنی ہماری بدپرہیزی سے لاکھوں لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ یہ وسیع وعریض میڈیکل کالج،وزیر صحت کی وزارت،عالمی صحت کا ارادہ WHO ہماری بدپرہیزی کامرہون منت ہے۔اس لیے ذیابیطس کے مریضوں سے ہماری پرخلوص درخواست ہے کہ خودآم کھائیے اور اپنا روپیہ ڈاکٹروں کو کھلائیے۔ کھاؤ اور کھانے دو پرعمل کیجئے تاکہ سب کی روزی روٹی چلتی رہے۔
”آ م کے آم گھٹلیوں کے دام“ یہ کہاوت آج کی نسل صرف پڑھتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم گھٹلیوں کے دام کھرے کرتے تھے۔ یہ اسوقت کی بات ہے جب مٹی کے کچے گھروں میں رشتوں کی پکی محبت پلتی تھی۔ گھروں میں آنے جانے سے روکنے کے لیے نہ ہی کتے پالے جاتے نہ ہی سی سی کیمروں کا وجود تھا۔ چاچا تایا‘ دادا دادی،پھوپھا پھوپھی،خالہ خالو،ماموں ممانی سب اپنے تھے۔ سب ایک دوسرے کے گھرآیا جانا کرتے، چچا،تایا کا گھر بھی اپنا ہی گھر ہوتا۔ سب آپس میں بہن بھائی ہوتے۔ کسی کا جھگڑا ہوتا تو پورا قبیلہ اس کی پشت پرکھڑے ہوجاتا۔ میاں بیوی میں ناچاقی ہوتی تو خاندان کے بڑے بیٹھ کر مسئلہ حل کرتے۔ پورے خاندان میں چھوٹی سے بڑی خوشی پرمبارک باد کی سوغات بانٹی جاتی۔ ان کچے گھروں کے کسی کونے میں ٹین یا پھُٹے کے کارٹون میں آم کی گھٹلیاں جمع کی جاتیں۔ پپ جی اورماریوجیسے موبائل گیم کی بجائے ان گھٹلیوں سے ہارجیت کھیلی جاتی۔ کبھی محلے میں ٹن ٹن گھنٹی بجاتا برف والا‘ غبارے اور بڈھی کے بال والا آتا۔ توآم کی گھٹلیوں کے بدلے انہیں خریدا جاتا۔ کبھی کبھی گھٹلیوں کے دام بھی گھرسے کھرے کیے جاتے۔ آدھے پیسے امی کو دیے جاتے اور آدھے پیسے سے جوکچھ خریدا جاتا، دوستوں کے ساتھ کھایا جاتا۔ آم میں پتلارس کم اورگھٹلی زیادہ ہوتی۔
آج کے دورمیں دیسی آم (مقامی آم)کی بجائے پتلی گھٹلی والے لذیذ اوررسیلے آموں کی دھوم ہے۔ آج تولنگڑا آم بھی سارے ملک میں گھوم رہا ہے۔ ارے یہ تو ہمارے گھرپہنچ گیا ہے چلوپہلے اسے کھاتے ہیں اوربعد میں آم پر مضمون لکھتے ہیں۔خدا حافظ۔